Rehman Amjad Murad Ki. Best poetry.AdabSaz|Sad poetry |
کلام شاعر
تعارف
نام:رحمان امجد قلمی
نام:رحمان امجد مراد
ولدیت:محمد اکبر تاریخ پیدائش:2مارچ1950
تعلیم:ایف اے پتہ:محلہ
تاج پورہ سیال کوٹ
غزل۱
جتنے پتھر ہیں سبھی مجھ میں لگاتے جاؤ
مجھے دیوار کی مانند اٹھاتے جاؤ
میرے چہرے کو پڑھو ایک کہانی کی طرح
اور جذبات کی تصویر بناتے جاؤ
یا مقدر میں مرے اپنا اضافہ کر دو
یا مرے ہاتھوں کی تحریر مٹاتے جاؤ
ایک کے بعد کرو ایک اندھیرے میں شگاف
ایک کے بعد دیا ایک جلاتے جاؤ
آج دستار کی قیمت ہے کسی سر کی نہیں
میرا سر کاٹ کے دستار چراتے جاؤ
میرے ماتھے پہ ستارے کی جگہ خالی ہے
اپنے ہاتھوں سے کوئی داغ سجاتے جاؤ
تری آنکھوں میں قیامت کے ہیں میخانے مراد
اپنی آنکھوں سے کوئی جام پلاتے جاؤ
بڑا چپ چاپ سا گمنام سا رستہ ھوں مراد
التجا ہےکہ مری خاک اڑاتے
جاؤ
غزل2
کسی تاریک اندھیرے سے اجالا لے کر
آ گیا دیس سے میں دیس نکالا لے کر
مجھ کو محفل سے نکالے گا بھلا وہ کیسے
میں تو آیا ہوں یہاں تیرا حوالہ لے کر
کسی دیوار میں بھی دیکھا نہیں دروازہ
بڑا مایوس ہوا ہاتھ میں تالا لے کر
چاند آوارہ ہوا آ کے میری
بستی میں
ابھی نکلا ہے کسی گھر سے وہ ہا لا
لے کر
آج تو سارا سفر بانٹ دیا تھا اس نے
اور میں بیٹھا رہا پاؤں کا چھالا لے کر
تیری دنیا کے حسیں لوگ یہ کہتے ہیں مراد
آ گیا اپنی طرح بخت بھی کالا لے کر
چاند جو ہاتھ کسی کے نہیں آتا تھا مراد
میں نے چوما ہے اسے ایک اچھالا لے کر
غزل3
کسی تاریک اندھیرے سے اجالا لے کر
آ گیا دیس سے میں دیس نکالا لے کر
مجھ کو محفل سے نکالے گا بھلا وہ کیسے
میں تو آیا ہوں یہاں تیرا حوالہ لے کر
کسی دیوار میں بھی دیکھا نہیں دروازہ
بڑا مایوس ہوا ہاتھ میں تالا لے کر
چاند آوارہ ہوا آ کے میری
بستی میں
ابھی نکلا ہے کسی گھر سے وہ ہا لا
لے کر
آج تو سارا سفر بانٹ دیا تھا اس نے
اور میں بیٹھا رہا پاؤں کا چھالا لے کر
تیری دنیا کے حسیں لوگ یہ کہتے ہیں مراد
آ گیا اپنی طرح بخت بھی کالا لے کر
چاند جو ہاتھ کسی کے نہیں آتا تھا مراد
میں نے چوما ہے اسے ایک اچھالا لے کر
غزل 4
وہ بظاہر جو میرے ساتھ رہا کرتا تھا
درمیاں فاصلہ کوسوں کا رکھا کرتا تھا
اچھا لگتا تھا اسے مجھ کو بلانا
شاید
وہ بہانے سے میرا نام لیا کرتا تھا
چکھ لیا اس نے زمانے کی ہوا کو آخر
جو محبت کو عبادت بھی کہا کرتا تھا
کس طرح اس کے خلاف اپنی گواہی دیتا
وہ برا ہوگا مگر میری حیا کرتا تھا
میری یادوں کی حفاظت نہیں کر پایا وہ
اس کی عادت تھی پرندوں کو رہا کرتا تھا
میری دیوار کے ساۓ میں ٹھہرنے والا
میرے دروازے پہ اک دھوپ رکھا کرتا تھا
کر دیا خود کو دعاؤں کے حوالے اس نے
جو میرے واسطے دن رات دعا کرتا تھا
کوئی شکوہ ہی نہیں مجھ کو زمانے سے مراد
جو بھی کرتا تھا میرے ساتھ خدا کرتا تھا
غزل5
جیت پاۓ نہ کھبی اور نہ ہارے
مجھ کو
کاش وہ جھیل سی آنکھوں میں اتارے مجھ کو
اس کا ہو جاؤں اگر دل سے پکارے مجھ کو
میری خواہش ہے کہ وہ آ کے سنوارے مجھ کو
کون پاگل ہے جیسے اپنی خبر ہوتی ہے
پھر بھی کرتے ہیں کئی لوگ اشارے مجھ کو
کب مرے درد کو سمجھیں گے یہ دریا والے
کب سمبھالیں گے مرے یار کنارے مجھ کو
گھنٹیاں مجھ کو بلاتی ہیں کھبی مندر کی
کھبی مسجد کے بلاتے ہیں
منارے مجھ کو
وقت بے رحم نے مصلوب کیا ہے مجھ کو
کوئی تو آے جو سولی سے اتارے مجھ کو
چاند کو بانٹ دیا آج فقیروں میں مراد
بانٹنے آے ہیں آپس میں ستارے مجھ کو