Rasheed aAfreen Ka majmooa Chiragh E Akhwat.Tabsra Ashfaq Shaheen |
تحریر:اشفاق شاہین۔گجرات
’’چراغ اخوت‘‘ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے سینئر شاعر رشید آفریں کا تازہ مجموعہ کلام ہے ۔ 2021 میں منظر عام پر آنے والی یہ کتاب سات حصوں میں منقسم ہے ۔پہلا حصہ شاخ سار کے عنوان سے ہے اس میں شاعر کی تحریر ابتدائیہ کے ساتھ ساتھ محمد قیصر فدا، ڈاکٹر تصدق حسین،نسیم سحر، ریاض حسین زیدی اور عبدالکریم خالد کی صاحبِ کتاب پر تحریریں شامل ہیں ۔مجموعہ کا دوسرا حصہ عقیدت کے عنواں سے ہے۔ اس میں حمدیہ اور نعتیہ کلام پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ سوم حصہ میں غزلیات کا احاطہ کیے ہوئے ہے؛ اس میں رشید آفریں کی 43 غزلیات شامل ہیں۔حصہ چہارم میں منظوم کے زیرعنوان 30 نظمیں دی گئی ہیں ۔ نظموں میں کچھ ملکی صورت حال کے تناظر میں کہی گئی ہں ؛کچھ علامہ اقبال کے افکار کی ترجمانی کرتی ہیں اور کچھ نفاذ اردو کے حوالے سے ہیں ۔اس حصہ کی خاص بات یہ ہے کہ کچھ نظمیں شعراء اور ادباء پر کہی گئی ہیں جن میں انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ یہ نظمیں صاحب کتاب کی ادب اور ادیب سے محبت، دوستی اور خلوص کی خوبصورت مثال ہیں۔ موجودہ دور میں جبکہ لوگ شاعری،نثر نگاری ایک دوسرے کے عیب تلاش کرتے ہیں ،کیچڑ اچھالتے ہیں اور ایک دوسرے پر نکتہ چینی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ایسے میں بہت بہت کم قلم کار ایسے ہیں جو فکر و فن سے منسلک سخن وروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ رشید آفریں کا یہ رویہ قابل تحسین بھی ہے اور قابل تقلید بھی ۔ جن شعرا و ادبا کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے ان میں مولانا روم، شکیب جلالی ،تاب اسلم ، قمر صحرائی ،شکیل سروش، گل بخشالوی، خواجہ اعجاز احمد ،عبدالرحمٰن امجد مراد اور عزہ قیصر(نواسی) شامل ہیں۔ کتاب کا ایک اور منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں مختلف کتب اور رسائل کی بھی منظوم تحسین ملتی ہے۔حوصلہ افزائی کی یہ کاوش بلاشبہ فروغ ادب کی مساعی کی ذیل میں رکھی جاسکتی ہے۔ 180 سے 200 تک کتاب کے صفحات اسی کار خیرکے لیے مختص ہیں۔ کلیات خالد احمد پر نظم عرض ہنر، پروفیسر گلزار بخاری کی صدائے کن فیکون پر نظم کے علاوہ ارمغان نعت از وحید انجم ،متاع عجز ازاقبال احمد ساجد ،اثاثہ جہاں اقبال از احمد ساجد خزاں کی محبت (میتھیو محسن) نہیں(افتخار شاہد)رسالہ سٹی میگ رسالہ دھوم کے بارےشامل نظمیں شامل ہیں ۔کتاب کا حصہ ششم متفرقات کے عنوان سے رحریروں کی سمیٹے ہوئے ہے۔ان میں شادی ، رخصتی اور الوداعی تقریبات پر نظمیں نظمیں شامل ہیں۔ جب کہ کتاب کے آخر میں قطعات دیے گئے ہیں۔
نعت
نگاری قدرت کا عطیہ ہے ہر مسلمان نبی اقدس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
رکھتا ہے اور ان کی تعریف و توصیف میں رہتا ہے۔ بعض شعرا اس طرف قدرتی میلان
ہوتا ہے ۔رشید آفرین جہاں اردو غزل کی روایتی چاشنی اپنے کلام میں سموئے ہوئے ہیں۔اسی طرح نعت کے باب میں بھی ان کا کلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
سے محبت اور فکر و فن کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ انہوں نے عمر کا بڑا حصہ ادب
کی سیاحی میں صرف کیا ہے۔ چنانچہ ان کی شاعری میں وہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو
ایک عمر کی ریاضت سے کسی شاعر کو نصیب ہوتی ہیں۔ان کے اشعار ادب کے روایتی روایتی
سانچے میں ڈھلے ڈھلائے ہیں اوراظہار کی خوبصورت مثال ہیں۔ حمد کے چند اشعار ملاحظہ
فرمائیں
ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے خدایا
تو پہچان اپنی کرا دے خدایا
ہر اک ذرے میں تیری حکمت کو سمجھیں
ہمیں دے فہم و ذکا دے خدایا
نعت کے چند اشعار دیکھئے
آمدِ خیر الوری کی دھوم ہے
دین کے پرچم کشا کی دھوم ہے
جلوہ نور ازل ہے چار سو
مشعلِ غارےحرا کی دھوم ہے
جل اٹھے غارِ حرا میں جب نبوت کے چراغ
ہو گئے روشن جہاں میں حق و وحدت کے چراغ
ہر دل انسان تھا نور بصیرت سے تہی
یک بیک جلنے لگے رشد و ہدایت کے چراغ
کتاب میں شامل غزلیات پر مقصدیت کا گہرا رنگ ملتا ہے۔ یہ بات اظہر من
الشمس ہے کہ انہوں نے صرف تفنن طبع کے لیے شعرگوئی کو شعار نہیں کیا بلکہ وہ اس فن
سے اصلاح معاشرہ کے متمنی ہیں۔ ان کے بیشتر اشعار جدید دنیا کےمسائل کا احاطہ کرتے
ہیں مگرعصر جدید کے مسائل بیان کرتے ہوئے بھی وہ حرف کاری کی روایت اس سے پوری طرح
جڑے رہتے ہیں ۔ان کے مصرعے ثقیل نہیں ہوتے وہ سطحیت کا شکار بھی نہیں ہوتے ۔ملک
میں امن و امان کے مسئلہ اور دہشت کردی پر ان کے اشعار ملاحظہ فرمائیں
یہی تو روسیاہ ہیں آج شامل نکتہ چینوں
عدو کے جو اشارے پر در آئے ہیں سفینوں میں
مہاجر جان کر انصار بن کر کی پذیرائی
کیا پھر ان کو ارض پاک کے شامل مکینوں میں
خیال خام ہے ان سے توقع خیر کی رکھنا
اگائے ہیں بم و بارود کے پودے زمینوں میں
اٹھتی ہوئی اقدار، نفسانفسی اور معاشرتی بگاڑ پر بات کرتے ہوئے کبھی
کبھی وہ یاس کے اس مقام پر جا پہنچتے ہیں جہاں امید کی کرن تک نظر نہیں آتی لیکن
دوسرے ہی لمحے ان میں رجائیت کی ایک لہر اٹھتی ہے
جو انہیں تازہ دم کردیتی ہے ؛وہ امید کاہاتھ تھامے حالات سے لڑنے پر تیار
ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی کمر کس لینے کا درس دینے لگتے ہیں۔ امید اور یاس
دونوں رنگوں کے اشعار دیکھیے
ختم ہوگی تیرگی نہیں ممکن
اب یہاں روشنی نہیں ممکن
موت کا رقص ہے یہاں جاری
اس لیے زندگی نہیں ممکن
ساز دل ڈوب ڈوب جاتا ہے
پیار کی راگنی نہیں ممکن
شور سے زندگی اجیرن ہے
ایک پل خاموشی نہیں ممکن
اپنا اپنا الاپ جاری ہے
ایک ہو بانسری نہیں ممکن
سب کے سب ہی یہاں درندے ہیں
خصلت آدمی نہیں ممکن
لیکن جیسے میں نے عرض کیا کہ ناامیدی کی یہ کیفیت مستقل نہیں ہے۔اب چند اشعار دیکھئے کہ جس میں
رجائیت کا پہلو پایا جاتا ہے
زمانہ لوٹ آئے گا محبت اور اخوت کا
ملے گا حوصلہ اک پیکرِ یکجا میں ڈھلنے کا
کھلیں گے غنچہ و گل کونپلیں بھی پھوٹ نکلیں گی
چمن میں جشن ہوگا پھر بہاروں کے اترنے کا
ان کی غزل جس کی ردیف’’
شاعر‘‘ ہے فن کے حوالے سے ان کا نکتہ
نظر پوری طرح بیان کردیتی ہے۔۔
ہر زمانے کے رہنما شاعر
جو ادب کے ہیں مہر و مہ شاعر
جن پر صدیاں بھی ناز کرتی ہیں
وہ ہیں تہذب کی بقا شاعر
جس نے رمزِ خودی کو پہچانا
دوسروں سے وہ ہے جدا شاعر
خود بظاہر رہا پس پردہ
آئینہ بھی گیا دکھا شاعر
خاک چھانی ہے ریگ زارون کی
ڈھونڈتا ہی رہا وفا شاعر
جس نے انسانیت کی خدمت کی
بس وہی پائے گا صلہ اشعار
آفرین امن ہی رہے ہر جا
کر رہا ہے یہ اب دعا شاعر
رشید آفریں کے خمیر میں سیالکوٹ کی مہک ہے اور وہ درد دل بھی رکھتے ہیں سو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ
پیام اقبال سے متاثر نہ ہوں۔سچ تو یہ ہے کہ ان کے کلام میں معاشرے کی درستی اور
اخلاقی اصلاح کا جوعنصر غالب نظر آتا ہے وہ اقبال سے ان کی محبت کا ہی شاخسانہ ہے۔ ’’خود
کو بدلنا ہے‘‘ نظم میں وہ معاشرے میں تبدیلی کی ترغیب بھی دیتے ہیں اور اقبال کے
افکار کی تائید کرتے ہوئے عوام کو اس پر عمل پیرا ہونے کی تعلیم بھی دیتے ہیں ۔وہ
لکھتے ہیں
بقول اقبال ملّت کے مقدّر کے ستارے ہو
سمجھ کر اب یہی قول و سخن خود کو بدلنا ہے
اسی حصہ میں شامل ایک اور نظم میں جس کا عنوان ’’شاہین اقبال‘‘ ہے وہ
یوں رقمطراز ہیں
فضا میں طائر اقبال ہو گر پر فشاں
مقابل ہوں نہ پائیں گے اس کے پھر تیر و سناں
کتاب میں شامل نظم ’’میرا سیالکوٹ‘‘ میں جہاں انہوں نے شہر
کی معاشرتی اور صنعتی زندگی کی عکاسی کی ہے وہیں سیالکوٹ کے مشاہیر کا ذکر بھی کیا
ہے جن فیض احمد فیض اور ظفر شامل ہیں اور ساتھ ہی ایک بار پھرحکیم الامت علامہ اقبال کی
فکری برتری کا تذکرہ یوں کیا ہے
ادب، فلسفہ ہو کہ ہو شاعری
علامہ کی کی تسلیم ہے برتری
خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ یہ کتاب فدا پبلی کیشنز اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے ۔
رشید آفریں جس دھیمی،سنجیدہ،اور پروقار شخصیت کے مالک ہیں ان کی
شاعری بھی ایسی ہی خوبیوں سے متصف ہے۔ان کے کلام میں اول تا آخر صاف اور واضح سنائی
دینے والا امن اور محبت کا پیام ملتا ہے۔ معاشرے کے سدھار کی تڑپ لفظ در لفظ دعوت
عمل دیتی دکھائی دیتی ہے۔