Ticker

6/recent/ticker-posts

ڈاکٹرافتخار الحق کا مجموعہ نعت ممدوح العالمین

Dr Iftkhar Ul Haq Ki Kitan Mamdooh Ul Almeen
 


نعت گوئی خدا کا خاص عطیہ ہے۔اردو شاعری میں بہت سے ایسے سخن ور ہیں جنہوں نے اس صنف میں نہ صرف اپنا نام پیدا کیا بل کہ نعت رسول مقبول کی رجحان سازی کا باعث بھی بنے۔ماضی قریب میں نگاہ دوڑائی جائے تو حفیظ تائب،مظفر واررثی سمیت کئی ایسے اسمائے گرامی نعت کےباب میں جگمگاتے دکھائی دیتے ہیں۔حفیظ تائب کو تو جدید دور میں نعت کا مجدد بھی کہا جاتا ہے۔وطن عزیز میں بڑے شہروں کے ساتھ مضافات نے جہاں دیگر ادبی اصناف میں نام پیدا کیا ہے وہیں نعت گوئی میں بھی لاتعداد نام ستارہ وار نظر آتے ہیں۔گجرات کی سطح پر بھی کئی ایک شعرا نعت رسول پاک کو وسیلہ اظہار بنائے ہوئے ہیں۔ان ہی میں سے ایک نام ڈاکٹر افتخار الحق ارقم کابھی ہے۔آپ کا تعلق گجرات کے مضافاتی گاوں پنڈی لوہاراں کے ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ایسے میں نعت کی طرف آپ کا میلان قدرتی امر بھی کہا جا سکتا  ہے۔ڈاکٹر افتخارالحق کی کتاب ممدوح العالمین مرے مطالعہ کی میز پر ہے۔یہ کتاب اکتوبر 2021 میں نستعلیق مطبوعات الفیروزز سنٹر نے اردو بازار لاہور سے شائع کی ہے۔۔ آغاز میں ڈاکٹر ریاض مجید کا مضمون  ممدووع العالمین ہے۔اس طویل تحریر میں انہوں نے شاعر کی شخصیت اور فکروفن پر سیر حاصل بحث کی ہے۔کتاب کے آغاز میں صاحب کتاب کی مختصر تحریربھی پیش لفظ کے عنوان سے موجود ہے۔ آغاز میں حمد باری تعالی ہے۔اس کے بعد نعتیہ کلام کا آغاز ہوتا ہے۔کتاب میں درج تمام نعتوں پر روایت کی گہری چھاپ پائی جاتی ہے۔ایک ایک مصرع یسا سانچھے میں ڈھلا ہوا ہے جو شاعر کی عقیدت کے ساتھ ساتھ فکرو فن پر اس کی دسترس  بھی ظاہر کرتا ہے۔شاعر نے نبی اقدس کی تعلیمات اور ان کے اوصاف حمیدہ کے بیاں پر خاص توجہ دی ہے۔۔ممدوح العالمین سے انتخاب پیش خدمت ہے

 

ہر طرف تھی کفر کی کالی گھٹا چھائی ہوئی

زندگی تھی موت کی دھشت سے گھبرائی ہوئی

ہر کلی دورِ خزاں کے ڈر سے مرجھائی ہوئی

آبرو بے حرمتی کے دام میں آئی ہوئی

 

عظمت کردار کا آئینہ زنگ آلود تھا

آدمی میں جوہر انسانیت مفقود تھا

 

اس نعتیہ کلام کو پڑھ کر مولانا حالی کی نظم مدو جذر اسلام کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔شاعر نے اسلام سے پہلے کی منظر کشی کے بعد آپ کے مبعوث ہونے کا بعد کا منظر بیان کیا ہے۔

نعتیہ کلام کے کچھ مزید اشعار ملاحظہ فرمائیں

 

تھم گئے کرب کے طوفان ترے آنے سے

راستے ہوگئے آسان ترے آنے سے

از سر نو ہوئی کردار کی تشکیل یہاں

 

آدمی بن گئے انسان ترے آنے سے

۔۔۔۔۔

جس کی غمِ احمد سے شناسائی نہیں ہے

پاس اس کے خوشی بھول کے بھی آئی نہیں ہے

 

زندہ کیا ہر شخص کے احساس کو اس نے

کس کس پہ یہ احسان مسیحائی نہیں ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

طبع، نبی میں حد سے سوا انکسار ہے

ہر اوج و جاہ عجزِ نبی پر نثار ہے

 

وہ ایسے تاج دار ہیں وہ ایسے باد شاہ

ان کا ہر اک غلام بھی گردوں وقار ہے

 

ان کا اک ایک نقش  قدم ہے چراغِ خلد

ان کی اک ایک سانس نسیم بہار ہے

 

ماں کو بھی اپنے بیٹے سے اتنا نہیں پیار

ہر امتی سے جتنا پیمبر کو پیار ہے

 

دیکھے ذرا پکڑ کے وہ دامان مصطفی

بے چین ہے جو آدمی جو بے قرار ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تکریم و احترام کا خوب اہتمام ہے

یہ بارگاہ اقدسِ خیرلانام ہے

 

زاہد قدم قدم پہ خیالِ ادب رہے

زیر فلک یہ سب سے مقدس مقام ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کروں بھی تو کروں کیسے بڑائی ان کی

ہفت افلاک سے آگے ہے رسائی ان کی

 

میرا ایماں ہے یہی میرا عقیدہ ہے یہی

بادشاہی سے بھی اچھی ہے گدائی ان کی

 

ان کے کردار سے مسحور ہوئے وہ اتنے

پیش کرنے لگے دشمن بھی صفائی ان کی

 

میں کسی حال میں بھی ان سے نہ بیگانہ ہوا

میرے ہونٹوں پہ رہی مدح سرائی ان کی

 

اس خرابے میں اجالوں کی فراوانی ہے

دل میں جب سے ہے مرے جلوہ نمائی ان کی

 

تحریر :اشفاق شاہین