Ticker

6/recent/ticker-posts

اردواورپنجابی کےشاعرراشد منصورکی شاعریRashid Mansoor ki Shairy

 
Rashid Mansoor ki Poetry|best Urdu poetry


راشد منصور کا تعلق گجرات کے مضافاتی قصبے لالہ موسی سے ہے۔اردو اور پنجابی میں شعر کہتے ہیں۔ان کی کتاب ’’دل کےزندان میں‘‘ طباعت کے آخری مراحل میں ہے ۔آپ شعبہ تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں۔


غزل1

تیری یادوں کے سمندر میں اتر جاؤں میں

تجھ سے ملنے کے تصور سے نکھر جاؤں میں

 

ساتھ تیرا جو مرے ساتھ ہو سایہ بن کر

یوں کڑی دھوپ میں صحرا سے گزر جاؤں میں

 

ہے جدا باغ میں تو رات کی رانی کی طرح

تیری خوشبو میں جدھر پاؤں اُدھر جاؤں میں

 

دل کے زِنداں میں تجھے قید کیا ہے میں نے

کوئی اِک بال بھی مانگے تو مُکر جاؤں میں

 

بے خودی ہے کہ پراگندہ کیا ہے مجھ کو

تیری دہلیز عطا ہو کہ سدھر جاؤں میں

 

قلبِ راشد ؔپہ تو قبضہ ہی ترا ہے جاناں

اِک اشارے پہ ترے جاں سے گزر جاؤں میں

  

غزل2

 

حسین لمحوں کو یاد کر کے میں اُلفتوں کی کتاب لکھوں

نئی رُتوں کی نزاکتوں سے محبتوں کے میں باب لکھوں

 

گلوں پہ جب بھی بہار دیکھوں تو صبحِ نو کا نکھاردیکھوں

جو ہو اجازت تجھی کو جاناں میں کیوں نہ کھِلتا گلاب لکھوں

 

تمھارے سنگ سنگ جو پل ہیں بیتے کبھی نہ انکوبھلا سکوں گا

کہو توحالِ خراب لکھوں یا دھڑکنوں کا حساب لکھوں

 

تمھاری زُلفوں سے نور لے کرنظر کی مستی ملا کے اُس میں

مٹھاس لہجے کی کر کے شامل میں تجھکو جامِ شراب لکھوں

 

جو پوچھتے ہو کہ کیا پڑھا ہے؟ نصابِ عشق و وفا پڑھا ہے

تمھارے رخ کا تمھارے عارِض تمھارے لب کا جواب لکھوں

 

ہوا کا جھونکا کہ چھو کے گزرے ترے معطّر بدن سے جاناں

تو پنچھیوں کو سنا سنا کر میں نکہتوں کا شباب لکھوں

 

تمھارے رستے پہ اپنی پلکیں بچھا کے راشدؔ دوام رکھوں

جو پوچھے مجھ سے ہے کس کی آمد تو نام تیرا جناب لکھوں

  


غزل3


اپنے بھی دن بدلیں گے ہے آس لگائی بچپن سے

کیسے بدلے گی قسمت یہ سمجھ نہ آئی بچپن سے

 

حسرت تھی جو اپنے دل میں، رہ گئی دل کی دل ہی میں

خواب ادھورے اُلفت جھوٹی ہم نے پائی بچپن سے

 

گیلی آنکھیں بھیگا آنچل ماں کا میں نے دیکھا ہے

صبر و رضا کی ہم کو جس نے بات سنائی بچپن سے

 

خوشبو جیسی باتیں گو آپس میں ہم نے بانٹی ہیں

دِل کو زخمی کرتی آئی چمن آرائی بچپن سے

 

ہم نے خود کو حد میں رکھا اور عادت اپنائی ہے

جب بھی دل میں خواہش نے لی ہے انگڑائی بچپن سے

 

ملنا جلنا لوگوں کا سب لینا دینا مطلب کا

آئی راس ہے تب ہی ہم کو یہ تنہائی بچپن سے

 

کاغذ اور قلم سے اپنا رشتہ بہت پرانا ہے

راشد ؔہوتی رہتی ہے سو سخن آرائی بچپن سے


غزل4


اپنے جیون میں روشنی کر لی

جس نے بھی ربّ کی بندگی کر لی

 

رتبہ آدم کو جب دیا ربّ نے

ایک عابد نے سر کشی کر لی

 

ہم فلک سے تھے آئے تیرے لیے

تونے ہم سے ہی دشمنی کر لی

 

جس کو تھا زعم نا خدا ہوں میں

اس نے گھبرا کے خود کشی کر لی

 

سانپ تو سانپ ہی ہے جانتے تھے

پھر بھی دشمن سے دوستی کر لی

 

میری جس کے بنا نہ کٹتی تھی

آج اس نے ہی بے رخی کر لی

 

اس سے دل کو سکون ملتا ہے

تب ہی راشدؔ نے شاعری کر لی

 

غزل5

 

آنسو کسی کے غم میں بہانے کے ہم نہیں

ایسے میں خون اپنا جلانے کے ہم نہیں

 

سنگ دل ہے جو سنے گا وہ کیوں کر کوئی نوا

اس بے وفا کو حال سنانے کے ہم نہیں

 

عادت ٹھکانے روز بدلنے کی ہے جنھیں

ایسوں کو اپنے دل میں بسانے کے ہم نہیں

 

راہِ وفا میں ہم سے بدل لے جو راستہ

جاتا ہے جائے اُس کو بُلانے کے ہم نہیں

 

عادت ہی اپنی اُس نے بنا لی ہے روٹھنا

روٹھے ہوئے کو روز منانے کے ہم نہیں

 

راشدؔ بھلایا اُس نے ہے سو دل سے نکالا

بس یوں ہی اپنی جان گنوانے کے ہم نہیں

 

غزل6 

 

میں نے تو اک دیئے کو ہی بجھنے نہیں دیا

مشکل تھا پر انا کو بھی مرنے نہیں دیا

 

نفرت کی آندھیوں سے میں سینہ سپر رہا

پر دل سے اس کے پیار کو مٹنے نہیں دیا

 

حصّے کی روٹیاں بھی پرندوں کو ڈال دیں

آنگن سے فاختہ کو یوں اُڑنے نہیں دیا

 

سورج کی تیز دھوپ میں جلتا رہا مگر

برگد نے ٹھنڈی چھاؤں کو گھٹنے نہیں دیا

 

نفرت کی آگ اُنس و محبت سے بجھ گئی

راشدؔ نے رابطوں کو بکھرنے نہیں دیا

 

غزل7

  

دوستوں کے درمیاں، دشمنوں کے درمیاں

سازشوں کے سائے ہیں اُلفتوں کے درمیاں

 

جسم لخت لخت ہے زخم بے شمار ہیں

کاش تم سمیٹ لو آفتوں کے درمیاں

 

آؤ تو کبھی مری بے بسی کو دیکھنے

دھوپ ہی ٹھہر گئی بارشوں کے درمیاں

 

ہمسفر مرے مجھے تنہا چھوڑ کر چلے

سائے بھی جدا ہوئے راستوں کے درمیاں

 

بے رخی یہ آپ کی کس لیے عزیز ہے

ہنس پڑا ہوں میں کبھی آنسوؤں کے درمیاں

 

گھُپ اندھیری رات میں روشنی کی آرزو

کوئی تو چراغ ہو ظلمتوں کے درمیاں

 

کائناتِ عشق میں گو وفا کی خو رہی

متاعِ زندگی لٹی قافلوں کے درمیاں

 

میں جدھر گیا مجھے مطلبی سبھی ملے

دوستوں کے روپ میں حاسدوں کے درمیاں

 

غزل8

مدھم آنکھوں میں خواب دیکھے ہیں

ہم نے جلتے گلاب دیکھے ہیں

 

جب وہ چہرہ سمائے آنکھوں میں

ناچتے ماہتاب دیکھے ہیں

 

رات بھر اِک پلک نہیں جھپکی

راستے یوں جناب دیکھے ہیں

 

اُن کا آنا ہی معجزہ ہوگا

خواب میں ہم رکاب دیکھے ہیں

 

ایک لمحے کی بس خوشی کے لیے

عمر بھر کے عذاب دیکھے ہیں

 

مکتبِ عشق بھی پڑھا راشدؔ

جب سے چہرے کتاب دیکھے ہیں

 

غزل9


اَب مجھ کو نہیں تجھ سے سروکار محبت

کر دے تو مجھے غم سے ہی دوچار محبت


شاہد ہوں میں دیکھا ہے بہت میں نے زمانہ

دولت کے مقابل تھی گئی ہار محبت

 

آواز سماعت سے چھپا کیوں نہیں لیتے

ہو جاتی ہے اَن دیکھے ہی ہر بار محبت

 

زخموں سے ہوا چور تو اِس دِل نے کہا بس

پھر حُسن نے بھڑکایا کریں یار محبت

 

یوں دِل مرا بکھرا ہے کہ مشکل ہے سمٹنا

اُمید ہے ٹوٹی سو ہے آزار محبت

 

یہ غم ہی مرا مونس و ہمدرد ہے جاناں

رہنے دو مجھے ہجر سے دو چار محبت

 

اپنوں سے ملے زخم تو راشدؔ نے پکارا

دُشمن سے نہیں کوئی مجھے خار محبت

 

غزل10

 

کرتے ہیں لوگ پیار بھی معیار دیکھ کر

سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں لاچار دیکھ کر

 

مکرو فریب بغض و ریا کا ہجوم ہے

ابلیس دم بخود ہے مرے یار دیکھ کر

 

ہر جنس بک رہی ہے یہی کارِ جہاں ہے

ایمان کا ہے مول خریدار دیکھ کر

 

جس کی نظر میں عشقِ حقیقی ہو ضو فگن

ڈرتا نہیں ہے راہ کو پرخار دیکھ کر

 

راشدؔ وہ جس نے ہاتھ چھڑایا تھا بھنور میں

پچھتا رہا ہے اب مجھے اُس پار دیکھ کر

 

٭٭٭

غزل11

 

جس کو محبوب رکھو اُس سے کنارہ کرنا

ڈوبنے کا مرے ساحل سے نظارہ کرنا

 

ہم تو دنیا ہی لٹا بیٹھے ہیں جس کی خاطر

اُس کو آتا نہیں اُلفت میں خسارہ کرنا

 

گلشن‘ ہستی میں رنگوں کی تمنّا کے لیے

پھول چننے ہیں تو کانٹوں کو گوارہ کرنا

 

ہاتھ سے ہاتھ کچھ اس طرح ملائے رکھنا

آندھیوں میں بھی بچھڑنے کا نہ چارا کرنا

 

مرمریں ہونٹوں سے یہ حسنِ تکلُّم توبہ

کتنے ظالم ہو؟ یہی بات دوبارہ کرنا

 

تیز بارش ہو کڑی دھوپ اندھیری راتیں

ہم نے سیکھا ہے پرندوں سے گزارہ کرنا

 

منصبِ عشق کی تذلیل ہو جس سے راشدؔ

مجھ سے منسوب نہ وہ بات خدارا کرنا

 

شاعر: راشد منصور راشد(لالہ موسیٰ)…… ضلع گجرات