Ticker

6/recent/ticker-posts

مہدی چوہان کاشعری مجموعہ چراغِ نیم شب

 

Mehdi Chohan Ki kitab ChirGh e Neem Shab.Tabsra.Ashfaq Shaheen


مہدی چوہان گجرات کے نواحی علاقہ جید پور ڈےڈے سے تعلق رکھنے والے ایک خوش نوا اور روایت کے امیں شاعر ہیں۔حال ہی میں ان کا نیا مجموعہ کلام  چراغ آخر شب  شائع ہوا ہے۔ان کی دیگر اردو اور پنجابی کتب میں شعری ممجموعہ جبر کا زندان سمیت سہ حرفی، دین حق، سورہ یسین (پنجابی منظوم ترجمہ) شکوہ جواب شکوہ (پنجابی ترجمہ) ،غریب دی پکاراور اصلاحی کتابچے شامل ہیں۔ کسی شاعر کا نظریہ فن عام طور پر اس کی کتب کے عنوانات سے ہی عیاں ہو جاتا ہے ۔مہدی چوہان کی تخلیقات سے بھی ان کے قلبی رجحانات اورپسندیدہ موضوعات سے قاری کو فوری آشنائی حاصل جاتی  ہے۔ ان کی شاعری کے  بنیادی موضوعات دینی روایات کے فروغ کی خواہش ،ظلم و استبداد کے خلاف مزاحمتی رویہ اور روایتی مضامین قرار پاتے ہیں ۔ان کی پہلی شعری کی طرح زیر نظر مجموعہ کلام میں بھی یہ تمام رنگ پوری آب و تاب سے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم غزل کی مجموعی فضا عشق کے مجازی سے مملو ہے۔غزل میں ان کا محبوب روایتی ہے،جس کا پیکر شرم وحیا، دلکشی اور تجاہل سے گندھا ہوا ہے۔ کلاسیکل شعرا نےمحبوب کا جو تصور اپنے کلام میں پیش کیا ہے اور جس ناز و ادا سے اردو ادب کا قاری پوری طرح واقف ہے؛ وہی پیکر وہی صورتاپنے  پورے عشوہ و ناز و ادا کے ساتھ مہدی چوہان کی شاعری میں بھی محو خرام نظر آتی ہے۔


یوں کہا جاسکتا ہے ہے کہ مہدی چوہان کا کلام ایک مضبوط شعری روایت سے جڑی ہوا ہے ۔وہ گلزار ادب کے اس قد آور نخل کا ایک حصہ ہے کہ جس کی جڑیں روایت کی زمین میں گہرائی تک پیوست ہیں۔ میر، داغ ،حسرت اور ایسے ہی بے مثال شعراء کی شعری روایت سے جڑے ہوئے چند خوبصورت شعر ملاحظہ فرمائیں جن میں محبوب کی ستم کاری کا نقشہ کھنچا گیاہے ۔

 

بے مثل زمانے میں تیری سنگدلی ہے

ہم جانے کے پتھر کو صنم کرتے رہے ہیں

 

میں ڈھونڈتا ہوں جس کو محبت کہاں گئی

محبوب تیرے پیار کی عادت کہاں گئی

 

بہت ہی سنگدل جلاد ہو اہل جفا تم ہو

سبھی کچھ ہو مگر پھر بھی ہمارے دل ربا تم ہو

 

خاطر میں نہ لایا وہ کبھی میری وفا کو

گراب نہ ملا مجھ کو تو پھر خاک ملے گا

 

مہدی چوہان کی کتاب چراغ نیم شب جہاں محبوب کی بے رخی، اس کی خوبصورتی اور سکون دل  تمناوں کا گوشوارہ ہے وہیں معاشرے میں ناانصافی،دہشت گردی،شر پسندی کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بھی ہے۔ ان کے اشعارمیں برائی نشان دہی اورکارغلط کے سامنے ڈٹ جانے کا درس نلتا ہے ۔ اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیے

 

صحن چمن میں کس نے یہ شعلےجلا دیے

بلبل کے ساتھ پھول بھی جس نے جلا دیے

 

شعلے سے جلتے ہیں میرے گلستان میں

پھولوں کی پتیوں کو وہ ماچس دکھا گیا

 

مسافر راہرو کو راہ سے گمراہ کرتے ہو

 عجب بہروپ ہے یہ راہزن یا رہنما تم ہو

 

مہدی چوہان کی شاعری کا ایک خاص رنگ اسلامی روایات کے فروغ کی تڑپ ہے۔ ان کے نزدیک موجودہ معاشرتی اورمعاشی مسائل کا حل اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے۔ مہدی چوہان چونکہ حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے کلام سے متاثر ہیں اور عام زندگی میں بھی فلسفہ اقبال کے حوالے دیتے رہتے ہیں؛ ایسے میں یہ کیوں کر ممکن تھا کہ ان کے کلام میں یہ رنگ نہ ابھر آئے ۔ مجموعہ کلام چراغ نیم شب کی تقریبا تمام غزلوں میں کہیں واشگاف طور پر کبھی بین السطور یہی پیغام ملتا ہے۔ کہ ہمیں اپنی زندگیوں کو اخلاقیات کا لباس پہنانا چاہیے،دینی شعار میں ڈھالنا چاہئے۔ اسی تڑپ اسی جذبے اور اسی پیغام سے جڑے ہوئے چند اشعار چراغ نیم شب ملاحظہ فرمائیں

 

ہماری زندگی کے واسطے قانون ربانی

نفاذ اس کا ضروری ہوگا ہر انسان پر آخر

 

بہتر کر دیے قرباں حسین بن علی نے

چمن کے پاسبان قربان بے غم ہوتے آئے ہیں

 

کسی بھی راستے پہ چل کے منزل نہیں سکتی

روش اچھی وہی ہے جو میرے خالق کو بھاتی ہے

مہدی چوہان کی غزلوں سے انتخاب پیش خدمت ہے


 غزل


نظر بے کار ہو جاتی ہے ظلمت کی عقوبت سے

شب تیرہ میں ہو گی روشنی نور محبت سے

 

بچائے پھول کلیوں کے چمن میں شعلے اگتے ہیں

کنارہ کش نہ  ہو جائیں اگر گلچین غارت سے

 

کبھی زرخیز ہو سکتی نہیں ہے ریگ صحرائی

اگے گی فصل گل کیسے یہاں صرصر کی شدت سے

 

مسافر کو تو رستے میں فقط زادے سفر چاہے

اسے دلچسپیاں ہوتی ہیں بس اپنی مسافت سے

 

ضرورت سے زیادہ رکھ رکھ نہیں سکتا کوئی مومن

ملیں یہ رہبری ہم کو قرآنی ہدایت سے

 

حقیقی عاشقوں کی ہے یہی پہچان اے مہدی

متاثر ہو نہیں سکتے یہ ابلیسی شرارت سے


غزل


لگا مجھ کو میری ان کو ضرورت بڑھتی جاتی ہے

مجھے شہرِخموشاں سے محبت بڑھتی جاتی ہے

 

نجانے اہل گلشن سے یہ کیا کچھ ہونے والا ہے

گل و بلبل کے سینے میں کدورت بڑھتی جاتی ہے

 

خمار مے میں اڑا جاتا ہے میخانے کا کیا ہوگا

یہاں بادہ و ساغر میں نفرت بڑھتی جاتی ہے

 

نہیں تھی دوستی لیکن اکٹھے بڑھتے آئے ہیں

ہمارے مہربانوں میں عداوت بڑھتی جاتی ہے

 

گھروں میں اہل زر کے ہے سماں تذلیل ثروت کا

امیر شہر کہتا ہے کہ غربت بڑھتی جاتی ہے

 

نہیں معلوم رستے میں لُٹے گا کارواں کس سے

سنا ہے بے نواوں کی شرافت بڑھتی جاتی ہے

 

یہ انہونی سی لگتی ہے چھپی گوشوں میں فیاضی

یہاں مہدی بخیلوں کی سخاوت بڑھتی جاتی ہے


ستمبر2021 میں شائع ہونے والی 214صفحات پر مشتمل اس کتاب کا زر خرید 500روپے ہے۔کتاب خوب صورت سرورق کے ساتھ روزن پبلشرز گجرات نے شائع کی ہے۔