AdabSaz Ka live Mushaira-Sadarat.Zamir Talib-Maizban.Ashfaq Shaheen.
کرونا
وائرس کے دوران عالمی سطح پر زندگی تعطل کا شکار ہے۔کاروباربند ہیں عوام کا گھروں
سے نکلنا محال ہے۔ ایسے میں ادبی سرگرمیوں کا تھم جانا قدرتی امر ہے۔تاہم جس طرح کچھ
تعلیمی ادروں نے تدریس کو انٹرنٹ سے منسلک کردیا ہے اور جس طرح بعض دیگر ادارے انٹرنیٹ
کے ذریعے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اسی طرح کچھ ادبی تنظیموں کی طرف سے آن
لائن مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔جہاں ایب و شاعر اپنے اپنے گھر میں رہ کر
مشاعروں میں شریک ہو تے ہیں۔اس روش نے ادبی تقریبات کا دائرہ کار بڑھا کر بین
الاقوامی کردیا ہے۔امید ہے کہ مشاعروں کا جو سلسلہ کرونا وبا کی وجہ سے عمل میں
آیا ہے۔ آنے والے وقت میں ادبی تقریبات کے اہتمام کا نقشہ بدل کر رکھ دے گا۔جن
ادبی تنظیموں آن لائن مشاعروں کا سلسلہ
شروع کر کھا ہے ان میں ادبی تنظیم ادب ساز گجرات بھی شامل ہے۔ تنظیم کے زیر اہتمام
یو۔کے میں مقیم اردو کے نام وراور جدید اسلوب کے شاعر ضمیر طالب کی زیر صدارت ایک
مشاعرہ اتوار6فروری2022 کو پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق راے نو بجے منعقد
ہوا۔یہ تقریب یو ٹیوب اور فیس بک کے ادب ساز پیج پر لائیو پیش کی گئی۔شعرا کے کلام
سے انتخاب پیسش خدمت ہے۔
اشفاق شاہین
پیار کرنا سکھادیا اس کو
اہنے جیسا بنادیا اس کو
جس کو گولی سے نیند آتی تھی
بات کرکے سلادیا اسکو
ارسلان سیف
وسعت میں بے حساب ہے ہونا بھی شاہیے
لیکن ہمیں تو عشق میں کونا بھی چاہیے
..نگل گیا رم آہو کو خواب دریا کا
کرے گا دشت ہی اب احتساب دریا کا
ڈاکٹر احسان گھمن
خوشبو کو ترستی رہیں جنگل کی ہوائیں
صندل تو مرے گاوں کے مرگھٹ پہ پڑا ہے
یہ روشنی یوں ہی تو نہیں آتی زمیں تک
اک نور ہے تاروں کے جو جھرمٹ پہ پڑا ہے
امین عاصم
ہم سے بچھڑا تو کھلا یہ بھید ہم پر کہ
اک شخص
اپنے گھر سے ہی نہیں تھا وہ گھرانے سے
الگ
طنز کا تیر نشانے پہ ہی لگتا ہے سدا
پھینکا جائے یہ کہیں خواہ نشانے سے الگ
حکیم محبوب زاہد
نگاہ پھر کے مجھ سے چلاگیا اک شخص
کہ کہہ نہ پایا وہ مجھ کو بھلا برا کچھ
بھی
فقط جہاں میں اک آنے کی خطا کے سوا
ہزار بار میں اجڑا نہیں خطا کچھ بھی
جاذب گوندل
سونت کر پھرتا ہے تلوار نہتوں میں جو
شخص
جلد ہی اس کو ضرورت ہے زرہ پوشی کی
اگر احساس نہیں تھا مری موجودگی کا
کیوں خبر شہر میں عام ہوئی روپوشی کی
ارشد محمود ارشد
باہر نکل کے اس لیے جانا تو ہے نہیں
دشت خیال یار میں رستہ تو ہے نہیں
دکھ میں بھی پھوٹ پھوٹ کے ہنستا ہوں
بار بار
جس سے لپٹ کے روسکوں کاندھا تو ہے نہیں
ارشد شاہین
لوگ وحشت میں گئے دشت و جبل کی جانب
میں اٹھا اور چلاآیا غزل کی جانب
اپنی کٹیا میں وہ آسودگی حاصل ہے مجھے
دھیان جاتا ہی ںہیں میرا محل کی جانب
ضمیر طالب
وہ دیکھتا ہے تو نظریں سنائی دیتی ہیں
وہ بولتا ہے تو باتیں دکھائی دیتی ہیں
...
سنا ہے نیند میں اکثر دہائی دیتا ہوں
میں گویا اہنے خواب کے باہر سنائی دیتا ہوں