Dr Jawaz Jafri Ki Sadarat Mein AdabSaz ka Online Mushaira-Mehman Khasoosi Aatir
گزشتہ دنوں اردو کے نامور شاعر اور محقق ڈاکٹر جواز جعفری کی صدارت میں ادب ساز کا آن لائن مشاعرہ منعقد ہوا.اس خوب صورت تقریب کے مہمان خصوصی عاطر عثمانی(ملائیشیا)ارشد نذیر ساحل(فرانس) ارشد نعیم(شیخوپورہ)قسیم جعفری (لاہور)شاہ روم خاں ولی(کھاریاں(مہدی چوہان ,وجاہت تبسم(گجرات)تھے .اس تقریب کے میزبان اشفاق شاہیں (گجرات)تھے.شعراء کے کلام سے انتخاب پیش ہے
اشفاق شاہین
آتی کب ہے روز بلانا پڑتی ہے
نیند کی خاطر گولی کھانا پڑتی
ہم عجلت میں مرجانے کے عادی ہیں
خود پر گولی آپ چلانا پڑتی ہے
وجاہت تبسم
کون کہتا ہے فقط چاک گھمایا ہوا ہے
ہم نے تو کوزے میں بھی خون ملایا ہوا ہے
بس اس بات پہ سورج سے مری بنتی ہے
اس نے مشکل میں مرا ہاتھ بٹایا ہوا ہے
شاہ روم خاں ولی
اس کی گلی سے راستہ آگے نہیں گیا
میری گلی میں آج بھی زرخیز شام ہے
ایسا نہ ہو کہ اجرت مزدوری ہی نہ ہو
بستی میں ایک عمر سے شب خیز شام ہے
مہدی چوہان
آڑی ترچھی سی لکیریں جو قلم نے کھینچ دیں
ان لکیروں سے ترا چہرہ نمایاں ہو گیا
قریہ قریہ کوبکو بس تم نظر آنے لگے
سب جہاں اک صورت و پیکر میں پنہاں ہو گیا
قسیم جعفری
کوئی بیعت کا طلب گار بھی ہو سکتا ہے
اورمری سمت سے انکار بھی ہو سکتا ہے
سبھی زاہد ہوں پس ریش ضروری تو نہیں
کوئی مستانہ و مے خوار بھی ہو سکتا ہے
ارشد نذیر ساحل
تم چاہے مجھ سے دور رہو چاہے پاس ہو
لیکن یہ چاہتا ہوں کبھی مت اداس ہو
مدت ہوئی ہے تم سے ملے پھر بھی جانے کیوں
ہر وقت مجھ کو لگتا ہے تم آس پاس ہو
ارشد نعیم
ابھی ابھی میں آنکھ بھگو کر نکلا ہوں
اتر گیا تھا اک تصویر پرانی میں
عشق مسافر ہے جو چلتا رہتا ہے
خاک اڑاتے لحوں کی نگرانی میں
عاطر عثمانی
ایک دوجے کی راہ تکتے ہوئے
ایک دوجے پہ رہ گئی آنکھیں
دونوں جانب تھا سامنے دریا
دونوں جانب سے بہہ گئی آنکھیں
...
مری دھڑکن سے مل کر ناچتا ہے
مرے اندر قلندر ناچتا ہے
ڈاکٹر جواز جعفری
اس طرح رسم نبھائی گئی غم خواری کی
مرگئے ہم تو پرندوں نے عزاداری کی
موٹ بٹتی تھی سر کوچہ و بازار جہاں
ہم نے اس شہر میں جینے کی اداکاری کی
نسل در نسل خوش آیا ہمیں خوں رنگ لباس
ہم نے پوشاک نہ پہنی کبھی درباری کی
ساتھ اپنے لیے پھرتا ہوں فصیل گریہ
دیکھ یوں میں نے ترے غم سے وفاداری کی
چلنے دیتی نہیں ان پیڑوں کو یہ خاک جواز
میں نے ہی سوچ کے دریا میں شجرکاری کی
.....
جیتے جی عشق کا آزار کہا جاتا ہے
زخم بھر کر بھی مرے یار کہاں جارتا ہے
میں دریچے سے سرشام اسے دیکھتا ہوں
پھول لے کر مرا رہوار کہاں جاتا ہے
مجھ سے لڑتا ہے وہ ہربار گلی کوچوں میں
جنگ لڑنے مراسالار کہاں جاتا ہے
دن نکلتے ہی ہر اک آنکھ مجھ سے پوچھتی ہے
رات تو ندی کے اس پار کہاں جاتا ہے
ساتھ چلتے ہیں سب گریہ کی دیوار تلک
قبر میں کوئی عزادار کہاجاتا ہے
جب کڑی دھوپ مرے جسم کو جھلساتی ہے
تب ترا سایہ ء دیوار کہاں جاتا ہے
گر کے مقتل میں بکھرجاتا ہے پارہ پارہ
مرا سر بھی سردربار کہاں جاتا ہے.
تقریب کے آخر میں میر محفل ڈاکٹر جواز جعفری نے کہا کہ آج کے مشاعرہ میں بہت تازہ اور نئے زاویوں سے کہے گئے اشعار سننے کو ملے اور نہ صرف پاکستان بلکہ فرانس ملائیشیا تک شاعروں کے شعراء کے کلام کا حظ اٹھایا انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا جو نیا زاویہ شامل ہوا ہے اس میں اگرچہ خرابیاں ہیں لیکن اس کے ساتھ اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ فاصلے ختم ہو گئے ہیں اب جب چاہیں کہیں سے بھی لوگوں کو آن لائن لے سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ آج کے مشاعرہ میں بہت معیاری شعر سنائے گئے .