Ticker

6/recent/ticker-posts

حکیم محبوب زاہد کا مجموعہ کلام اوراق دل تبصرہ اشفاق شاہین

 
Hakeem Mehboob Zahid Ki Kitab Aouraq E Dil|Tabsra.Ashfaq Shaheen
Hakeem Mehboob Zahid Ki Kitab Aouraq E Dil|Tabsra.Ashfaq Shaheen


بلاشبہ دل سے نکلنے والی بات اثر رکھتی ہے اور اگر وہ بات کلام نرم ونازک ہو تو اور بھی زیادہ اثر انگیز ہو جاتی ہے. شاعری یوں بھی قلبی واردات بتائی جاتی ہے. جب اشعار دل کے ترجمان ہونگے تو وہ یقینا دوسرے کے دل میں اترتے چلےجائیں گے


اس تناظر میں اگر منڈی بہاوالدین پاکستان سے تعلق رکھنے والے جواں فکر شاعر حکیم محبوب زاہد کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو ان کی کتاب اور اوراق دل اسم بامسمی دکھائی دیتی ہے.یہاں رواں دواں بحور میں سہل ممتنع سے متصف اشعار غزل کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ملتے ہیں.


محبوب زاہد کی شاعری میں عشق کی روایتی رنگ آمیزی بھی ہے اور جدید لہجے کی چاشنی بھی لیکن ان کے کلام کی بڑی خوبی وہ بے ساختگی ہے جو صفحہ اول تا آخر ان کے کلام میں جلوہ گرنظر آتی ہے یہی وہ صفت جو  قاری کے لئے تفہیم کے راستے میں کوئی خلیج حائل نہیں ہونے دیتی.یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان کے کلام میں سادگی اور فنی دستگاہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامےدکھائی دیتی ہیں. تاہم انہوں نے اپنی فنی قابلیت کے اظہار کے لیے کوئی بھونڈی اور طبیعت کو منغض کردینے والی ترکیب استعمال نہیں کی جیسا کہ ۔۔۔آج کل دستور بن چکا ہے. ان کا شعر نستعلیق یے, تہذیب سے جڑا ہوا روایت سانچے میں ڈھلا ہوا 



 ہر شاعر نے اپنے اپنے انداز میں غم حیات محسوس کیاہے اور اپنے ڈھنگ سے قرطاس پر منتقل کیا ہے.اوراق دل میں بھی یہ روایت ملتی ہے لیکن شاعر  نے غم عشق کو گھمبیر نہیں ہونے دیا. محبوب زاہد کی شاعری میں غم کی شدت اپریل کی گرمی کی طرح ہے؛تیزی کی طرف مائل مگر جھلسا دینے والی نہیں۔شدت کی طرف بڑھتی غم کی لہر  حبس کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اکثر  غزلوں میں دکھ کی کیفیت اگلے شعروں تلک چلتے چلتے شام کی معتدل فضا کی سی تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے.ان کے کلام کا یہ انداز ان کے معتدل مزاج ہونے اور متوازن شخصیت کی عکاسی کرتا ہے .

چند اشعار ملاحظہ فرمائیں


Hkeem Mahboob Zahid ki kitab Auraq E Dil Ki KI Ronmaui
حلقہ ارباب ذوق منڈی بہاوالدین کے زیر اہتمام حکیم محبوب زاہد کی کتاب اوراقِ ادل کی تقریب رونمائی اشفاق شاہین کی زیرِ صدارت منعقد ہوئی

عہد فرقت میں غم ضروری ہے

 خشک آنکھوں میں نم ضروری ہے


 جس سے حالت میں بہتری آئے

 ایک ایسا قدم ضروری ہے


حکیم محبوب زاہد کی شاعری کا ایک اہم پہلو ان کی رجائیت پسندی ہے وہ دل کے معاملات ہوں کہ ملکی مسائل,داخلی اور خارجی پہلو یاسیت کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ہمہ دم امید کی انگلی تھامے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

چند اشعار دیکھیں 

چراغ بجھتے تو رہتے ہیں خانقا ہوں کے

 مگر اجالے نہیں ہوتے کم نگاہوں کے 


بھی سورج نہیں ابھرا کہیں سے

ابھی میں رات خود سے لڑ رہا ہوں 


ہیں پہ رکھ دیا میں نے چراغ جلتا ہوا 

جہاں بھی دیکھ لیا آفتاب ڈھلتا ہوا 


ہزار جال میری راہ میں بچھائے گئے 

مگر میں چلتا رہا دیکھ کر سنبھلتا ہوا


کسی بھی اچھے سخنور کے کلام میں کچھ ایسے اشعار ضرور ملتے ہیں جو پڑھنے والے کو چونکا دیتے ہیں اور سخن گو کے خاص رنگ کی ترجمانی کرتے ہیں .حکیم محبوب زاہد کے کلام میں ایسے کئی اشعار مل جاتے ہیں جو قاری کو اپنے منفرد مضامین کی وجہ سے لبھاتے ہیں اور  یاداشت کا حصہ بننے کی خوبی رکھتے ہیں مزیدبرآں ایسے اشعار ان کےشعری اسلوب کے خدوخال واضح کرتےہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں.بطور قاری مجھے جن اشعارنے اپنی انفرادیت اور جدیدیت سے متاثر کیا ان میں سے چند پیش خدمت ہیں۔


کہا یہ پوتے کو دادا نے ہچکیاں لے کر

 تو میرے پاس نہ آیا اگر تو ماروں گا


 سر پر پڑی جو دھوپ تو بچنے کے واسطے

 سایہ میرے وجود کا پیروں میں آگیا


 سفر تو اتنا زیادہ نہ تھا میں عمرتمام

 درخت گنتا رہا ہوں کسی کی راہوں میں


 کب مقدر میں لکھا ہے کہ زنداں میں رہو ں

اک نئی بات ہی کہہ دی میری زنجیر نے آج


 معتبر مجھ کو بھی جو کر دیتا 

 شہر میں وہ نظام تھا ہی نہیں


 جھک کے ملتا تو پھر منافق تھا 

دل میں جب احترام تھا ہی نہیں 


مدت سے ایک یاد ہے باہر پڑی ہوئی 

زاہد مکان دل کا کشادہ نہیں ہوا


محبوب زاہد کی شاعری میں عصر جدید کے دیگر شعراء کی طرح معاشرے کی ناہمواری.زندگی کے عمومی مسائل اور معاشرتی جبر کی تصویر کاری بھی دکھائی دیتی ہے جو بسا اوقات ان کے ذاتی تجربے پر مبنی محسوس ہوتی ہے۔


عسرت کے روز و شب میرے بھائی بھی کھا گئے

 راحت کی زیست نے میری بہنیں بھی چھین لیں 


 خیرات بٹ رہی تھی جو لوگوں کے درمیاں

 اتنا بڑا دکھاوا تو مجھ کو گنہ لگا


 حکیم محبوب زاہد کا مجموعہ کلام اوراق دل صبح روشن پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرزنے اردو بازارسے شائع کیا ہے.کتاب میں 80غزلیات شامل کی گئی ہیں جبکہ آغاز میں حمد, نعت اور سلام بھی درج ہے. ابتدائیہ میں شاعر نے کچھ اپنے بارے میں کے عنوان سے گئے دنوں کی یادیں تازہ کی ہیں. اس کے بعد سید حسنین محسن کی مختصر تحریر تمھارا کہا ہی معتبر ہے سمجھ گئے نا اور حرف چند کے تحت افضل گوہر راؤ کی رائے درج ہے .اس کتاب کی قیمت 500 روپے ہے. یہ مجموعہ کلام ایک فکرو فن آگاہ شاعر کی شعری ریاضت کا آئینہ دار ہے.

AdabSaz|Ashfaq Shaheen


x