پاکستانی شاعرہ گل رابیل کا شعری مجموعہ دشت کو پیاسا دیکھ کر
تبصرہ نِگار:اشفاق شاہین
اردو کی تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ زبان و ادب کی ترویج میں خواتین نے بھی خاص کردار ادا کیا ہے۔ نثرونظم کی کہکشاں میں خواتین لکھاریوں کے نام ستاروں کی طرح جھلملاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شاعری کے باب میں بلاشبہ ایسی شاعرات بھی ہیں جنہوں نے اپنے خاص اسلوب کے باعث نہ صرف اپنی فنی دست گاہ تسلیم کرائی بلکہ اپنے انداز بیاں کے قابل تقلید نشاں بھی چھوڑے۔
عصر حاضر میں بھی ایسی کئی سخنور موجود ہیں جو اپنے کلام کے حوالے سے خاص پہچان رکھتی ہیں انہی خوبصورت شاعرات میں سے ایک ملتان سے تعلق رکھنے والی شاعرہ محترمہ گل را بیل ہیں۔ موجودہ سوشل میڈیا کے دور میں اردو لکھاریوں کا سنجیدہ طبقہ نہ صرف ان کے نام سے آشنا ہے بلکہ ان کی باوقار شخصیت اور شعری تخلیقات کا بھی معترف ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام اسی سال فروری میں دشت کو پیاسا دیکھ کر منظر عام پر آیا ہے اور ادب کے قارئین سے داد و تحسین حاصل کر رہا ہے۔
کسی بھی شاعر یا نثر نگار کی پہلی کتاب اس لیے بھی اہم سمجھی جاتی ہے کہ اس سے ادبی دنیا میں اس کے مقام و مرتبہ کا تعین ہوتا ہے ۔گل را بیل کا مجموعہ کلام دیکھتے ہوئے بے ساختہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا کلام اقلیم ادب میں ان کی شناخت کے نئے دروازے کھولے گا۔ زیرتبصرہ مجموعہ ان کے روز و شب کا گوشوارہ ہونے کے ساتھ ساتھ محبت کی اس آفاقی لہر سے پوری طرح منسلک نظر آتا ہے جو عالمی ادب کا بنیادی عنصر چلی آ رہی ہے۔
بلاشبہ محبت ایسا دھارا ہے جو ازل سے بہتا ہوا ابد تک چلتا چلا جا رہا ہے نہ تو اس کے بہائو میں کمی ہوئی ہے نہ ہی اس آب حیات کی فراوانی اور مٹھاس میں کوئی فرق آیا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی انسان زندہ رہے گا یہ دریا سوکھ نہیں سکتا، یہ جذبہ ختم نہیں ہو سکتا اور جب تک محبت رہے گی انسان کو انسان سے ملانے اور دل کودل جوڑنے والی شاعری بھی زندہ رہے گی۔ گو محبت اور عشق کے جذبات صدیوں سے شعر و ادب کا موضوع چلے آرہے ہیں لیکن ہر دور میں نیا لکھاری ان میں اپنے تجربے کی چاشنی بھر دیتا ہے یوں فن پاروں میں نئی لطافت پیدا ہوجاتی ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح ہر بہار کے موسم میں درخت پر نئی کونپلیں پھوٹ پڑتی ہیں اور پرانے پیڑ کو نئی دل کشی اور تازگی عطا ہوتی ہے۔ایسے ہی ادب کی سر زمیں پر بھی محبت کا شجر نئے برگ وبار سے آراستہ ہوتا رہتا ہے۔محترمہ گل رابیل اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں چنانچہ وہ محبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر، اپنے دل سے محسوس کر کے قرطاس پر یوں اتارتی ہیں کہ محبت کے جذبات کی آنچ میں ان کی شخصیت کی مہک بھی رچ بس جاتی ہے۔ وہ جس معاشرے میں رہتی ہیں اس کی ریت ،رواج اور شرم و حیا ،وضعداری ۔سب کچھ ملحوظ خاطر رکھتی ہیں اور اپنے شعروں میں ان کے رنگ بکھیرتی چلی جاتی ہیں۔ وہ جذبات میں بے باک نہیں ہوتیں بلکہ مشرقی اقدار اور نسوانیت کا خاص پہلو ملحوظ خاطر رکھتی ہیں۔ کچھ ایسی ہی خصوصیات کے حامل اشعار ملاحظہ فرمائیں
تو نے سمجھا نہ کبھی غور کیا ہے اس پر
دل کے آنگن میں کئی بار بنا دروازہ
میں اس سے بے تحاشہ پیار کرنا چاہتی ہوں
وہ مجھ سے پیار بھی حسب ضرورت مانگتا ہے
کچی عمر میں مجھ کو مجھ سے چھین لیا
نذر ہوا معصوم لڑکپن تیرے نام
عشق میں ہجر کی منزل عاشق کے لیے صدہارنج و الم کا پیام لاتی ہے ۔مسلسل ریاضت سے اسے یہ مراحل طے کرنا ہوتے ہیں ،مصائب سے نبرد ازاما ہوتے ہوئے عاشق صادق کی طرح منزل مراد کو پہنچنا ہوتاہے ۔اردو اورفارسی شاعری کا ایک دفتر ایسے معاملات اور قلبی وارداتوں سے کا ذخار ہے۔شاعر ی میں ایسے اشعار زیادہ پسند کئے جاتے ہیں جو ٹھیس لگے ہوئے دلوں پر مرہم رکھیں اور ثابت قدمی کا درس دیتے ہوئے ہنس ہنس کر زخم سہنے کی راہ دکھائیں ۔ ۔شاعرہ گل رابیل کی شاعری میں ہمیں ایسے ارفع جذبات سے مملو خوبصورت اشعار بکثرت ملتے ہیں جن میں وفا کرنے ،نباہنے اور دکھ سہنے کا شیوہ ملتا ہے۔یہ اشعار قاری کے دل کو چھوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ذرا نظر کیجے
جو تری یاد میں گرتا ہے مری پلکوں سے
وہ اشک تری عنایت سے کم نہیں لگتا
۔۔۔۔۔۔۔
اشک آنکھوں سے کچھ چھلک اٹھے
جانے کیا تھا تیری نشانی میں
نہیں تھا ترک محبت مرے لیے آساں
کیا ہے ترک تعلق تری خوشی کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔
جو انتظار میں تیرے گزار دیتی ہوں
وہ لمحہ لمحہ اذیت سے کم نہیں لگتا
اردو کی سخن سرائے میں بہت کم اہل سخن ایسےہیں جنہوں نے اپنے تخلص کو معنوی حوالےسے شعروں میں استعمال کیا ہے۔ ایسے میں ایک بڑی مثال مومن خان مومن کی ہے۔مومن کہتے ہیں:
کیوں سنے عرض مضطرب مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
یا پھر
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
تاہم دیگر شعرا کے ہاں ایسی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں ۔عام طور پر مقطع تیار کرنے کے لیے شعر میں تخلص ڈال دیا جاتا ہے اور بس۔ گل رابیل کی شاعری میں متعدد غزلوں میں ان کا تخلص شعر میں مفہوم ادا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اگر چہ وہ اپنی شاعری میں تین تخلص گل،رابیل اور گل رابیل استعمال کررہی ہیں تاہم جب وہ گل استعمال کرتی ہیں تو معنوی پہلو کا خاص خیال رکھتی ہیں۔
مثالیں دیکھیے
میں گل ہوں کھلتے ہیں مجھ پہ موسم کے بھید سارے
بدلتی رت کا مزاج کیا ہے مجھے پتا ہے
۔۔۔۔۔۔
میں ایک گل ہوں مہکنا تو میری فطرت ہے
مگرہے قلب میں کچھ اضطراب سنگتراش
۔۔۔۔۔۔۔
میں بھی رابیل مہک اٹھتی ہوں گل کی صورت
رقص کرتی ہوئی جب باد صبا دیکھتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
ساعت فصل خزاں سے پہلے
گل کو گلزار بنا دے ساقی
۔۔۔۔۔۔
گل ہوں خوشبو چرا نہ لے کوئی
میں نے خود کو حجاب میں رکھا
جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ ان کی شاعری محبت کے لطیف جذبات کے ساتھ ساتھ روز و شب کا گوشوارہ بھی ہے۔ بلاشبہ لکھاری اپنے معاشرے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا ، وہ جو کچھ دیکھتا ہے وہ بھی لکھتا ہے، جو کچھ اس کا دل محسوس کرتا ہے وہ بھی لکھتا ہے ایسی ہی داخلی اور خارجی خصوصیات سے مزین ایک خوبصورت غزل دیکھئے جس میں دل کی داستان سے لے کر معاشرتی المیوں تک تخیل کے ہائی ریزولوشن امیجز ہیں۔
تجھ کو گنوا دیا ہے تو پائی ہے زندگی
یعنی تیرے بغیربتائی ہے زندگی
کروٹ بدل بدل کے بھی کرتی ہوں تجھ کو یاد
ہجراں کے دشت میں بھی کمائی ہے زندگی
کوئی گیا تھا پھینک کے کوڑے کے ڈھیر میں
میں نے وہاں پہ جاکے اٹھائی ہے زندگی
اپنے لیے بچا کے رکھوں بھی تو کس لیے
جب جانتی ہوں میں کہ پرائی ہے زندگی
جن حادثوں میں جان گنوا تے ہیں سب کے سب
ان حادثوں میں نے بچائی ہے زندگی
وہ ناچتی پھرے ہے بہاراں میں رات دن
جو کہہ رہی تھی آبلا پائی ہے زندگی
گم تھی تیرے فراق کی وادی میں گل کہیں
مجھ کو وہاں سے ڈھونڈ کے لائی ہے زندگی
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرایک لمحے کے دل میں کیا ہے مجھے پتہ ہے
زمانہ کس درجہ بے وفا ہے مجھے پتا ہے
ملن کی حسرت میں آرزو کے دیے جلا کر
میرے لیے کون جاگتا ہے مجھے پتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
خیال و فکر کی تنویر ہی بدل ڈالی
کسی نے حرف کی توقیر ہی بدل ڈالی لی
اب اور کوئی بھی جچتا نہیں نگاہوں میں
جو دل پہ نقش تھی تصویر ہی بدل ڈالی
۔۔۔۔۔۔۔
ہر کسی کی جی حضوری کس لیے
یہ خوشامد ہی ضروری کس لیے
قربتیں اغیار سے اچھی نہیں
دوستوں سے اتنی دوری کس لئے
جب کوئی رانجھا نہیں ہے منتظر
پھر تیرے ہاتھوں میں چوری کس لیے
۔۔۔۔۔۔۔
عشق میں رابیل بحر بیکراں تک آگئے
بے خیالی میں کہاں سے ہم کہاں تک آ گئے
تم ملے تو مل گئی حرف و قلم کو حرف رفعتیں
یوں لگا جیسے سخن کے آسماں تک آ گئے
محترمہ گل رابیل بلاشبہ ایک عمدہ سخن گو ہیں ان کا مجموعہ کلام فکر و فن پہ ان کی گرفت پر دلالت کرتے ہوئے ادبی دنیا میں ان کا قابل قدر مقام متعین کرتا نظر آتا ہے۔ یہ مجموعہ کلام حمد، نعت رسول مقبول اور چند نظموں سمیت غزلیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ خوبصورت سرورق کے ساتھ 144 صفحات پر مشتمل یہ کتاب غلام طاہر رانا پبلیکیشنز نے ملتان سے چھاپی ہے ۔ کتاب میں شاعرہ کے فکر و فن پر خورشید بیگ، احمد ساقی، ارشد شرقی،راشد امین اور پروفیسر شفیق کے مضامین بھی شامل ہیں جب کہ فلیپ ریاض الدین ریاض اور تنویر سیٹھی نے تحریر کیے ہیں۔بیک پیج پر امجد اسلام امجد اور عطاالحق قاسمی کی آرادرج ہیں ۔فروری2021 کو شائع ہونے والی اس خوب صورت کتاب کی قیمت پانچ صد روپے ہے۔