دعا زمین کا شاعر،امن اور
محبت کا سفیر:پروین کمار اشک
تحریر:اشفاق شاہین
بھارت میں اردو شاعری باالخصوص غزل کی مضبوط روایت اپنی بھرپور توانائی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ اردو کے موجودہ منظر نامے پر ایسے بے شمار بھارتی شاعر نظر آتے ہیں جو اپنے لب و لہجہ جدت طرازی اور نکتہ آفرینی سے غزل کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ اسے نئی جہت دینے میں کردار ادا کر رہے ہیں ان اہم شعرائ میں سے ایک نام پروین کمار اشک کا بھی ہے۔ جو آل انڈیا ریڈیو کے مشاعروں اور علمی ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ حال ہی میں کچھ عرصہ پہلےان کا نیا مجموعہ کلام دعا زمین منظر عام پر آیا ہے جس نے ایک طرف پروین کمار اشک کی تخلیقی دستگاہ پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے تو دوسری طرف غزل میں جدید ترین روایت آگے بڑھانے میں بھی سمت نمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔
شاعری میں درویشانہ روش امن و آشتی اور انسانیت کا درس وہ خصائص ہیں جو کسی فن پارے کو کر علم و ادب کی آفاقی لہر سے منسلک کرتے ہیں. پروین کمار اشک کی شاعری کا خمیر بھی ان ہی خوبیوں سے ترکیب پاتا ہے ان کے نزدیک انسانیت کسی علاقے رنگ و نسل مذہب اور رسوم و رواج سے ماورا ہے۔ وہ آدمی سے پرستش کی حد تک عقیدت رکھتے ہیں سرحدوں کی حدود و قیود کا دکھ ان کے قلم سے لہو کے قطروں سا ٹپک کر کے اس پر محبتوں کی شجرکاری کرتا چلا جاتا ہے انسان دوستی کے ضمن میں ان کے چند اشعار پیش خدمت ہے ہے جو دریدہ دلوںکی رفوگری کرتے نظر آتے ہیں
میرے خدا تیری مخلوق سب سلامت ہو
دعایہ مانگوں جب اخبار سامنے آئے
اب لوگ زمینوں میں محبت نہیں بوتے
اس جنس کا کہتے ہیں خریدار نہیں
محبت کو سنا ہے دل کے بدلے
عجائب گھر میں رکھا جا رہا ہے
تمام دھرتی پہ بارود بچھ چکی ہے خدا
دعا زمین کہیں دے تو گھر بناؤں میں
وہ اپنی زندگی سے کیسے ملتا
کہ سرحد پر کھڑا پہلا لگا تھا
ہوا کو یہ سمجھایا کر
ہر رنگ مہکایا کر
میں تیرا ہمسایہ ہوں
پیارے آیا جایا کر
جدید دور نے انسان کو نئی سہولیات سے متعارف تو کرایا ہے مگر اس سے ماضی کا خوشرنگ کردار چھین لیا ہے تہذیب و ثقافت سے ہاتھ اٹھانے کے عمل نے اخلاقی اقدار کی نقب زنی شروع کر رکھی ہے مصیبت میں دوسروں پر چان نچھاور کرنے والے ایک ہی گھر میں رہنے والوں سے بےگانہ نظر آتے ہیں اشک کی شاعری میں یہ المیہ خاص رنگ کے طور پر ابھرا ہے۔.
میں تیرا ہمسایہ ہوں
پیارے آیا جایا کر
خطوط لکھنا تو پہلے ہی کر چکا تھاترک
کبوتروں کو بھی چھت سے اڑا دیا
بزرگوں کا بس ایک کمرہ بچا کر کر
تو جب چاہے پرانا گھر گرا دے
وہ پیش رو ہے مگر راستہ نہیں دیتا
بزرگ ہو کے بھی دیکھو دعا نہیں دیتا
تیری بندوق کیا مارے گی مجھ کو
کہیں سے تیغ لا کردار والی
اشک بزرگ دعاؤں والے چلے گئے
موسم ٹھنڈی چھاؤں والے چلے گئے
پروین کمار اشک کے بیشتر اشعار زندہ اجسام کی خصوصیات رکھتے ہیں انہیں چھو جانے پر ان میں موجود احساسات و جذبات کو بھڑکا دیے ہیں والی غیر مرئی لہریں قاری کے ذہن و بدن میں سرایت کرتے ہوئے اسے اپنے طلسماتی حصار میں لے لیتی ہیں۔ ان کی شاعری پڑھنے والے کو ہر بار نئی امیجری سے روشناس کراتی ہے۔ تاہم پروین کمار اشک کے اشعار گہرے اور پرت در پرت معنی رکھتے ہوئے بھی سلاست اظہار کی عمدہ مثال ہیں۔ وہ مشکل قوافی اور ردیف کے بکھیڑوں میں نہیں پڑتے اور نہ ہی بحور کے الٹ پھیر کا شکار ہوتے ہیں ان کا ہر شعر سہلِ ممتنع سے گلے ملتا ہوا نظر آتا ہے جوابشار کے تیز رو پانی کی طرح سر مستی اور سرعت سے دلوں کے دریاؤں میں اترتا چلا جاتا ہے. سادگی پر کاری اور جدت سے متصف چند اشعار جو گہری معنویت لیے ہوئے ہیں ملاحظہ فرمائیں.
بھیڑ کو چیرنا ہی پڑتا ہے
ہے بھیڑ میں راستہ نہیں ملتا
کسی کسی کو تھماتا ہے چابیاں گھر کی
خدا ہر ایک کو اپنا پتہ نہیں دیتا
بہت سوں کو رہائی مل چکی ہے
میرے بارے میں سوچا جا رہا ہے
بادلوں کا یقین مت کرنا
آنسوؤں کی جھڑی لگا دینا
وہ میرے گھر میں آ کر چھپ گئی تھی
میں جس لڑکی کا پیچھا کر رہا تھا
الف سمجھ میں آجائے تو
سب کچھ پڑھنا آجاتا ہے
سراپا شعر پروین کماراشک کی شاعری جدید مسائل, دوری کے کرب اور آدمیت