رئیس الدین رئیس کے مجموعہ کلام شہرِخواب پراشفاق شاہین کی تحریر(مطبوعہروزنامہ ڈاک (گجرات30ستمبر2014) |
رئیس الدین رئیس کا مجموعہ کلام شہرِ بے خواب
تحریر:اشفاق شاہین
غزل ہر دور میں محبوب صنف سخن رہی ہے. عصر حاضر میں بھی اردو کے قارئین کی بڑی تعداد اسی کے سحر میں گرفتار ہے .اس صنف سخن میں امکانات کم ہونے کے باوجود اتنے میں مضامین بیان ہو چکے ہیں کہ اب نام نکالنا اور الگ شناخت پیدا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے. پاک وہند سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں لاتعداد شعرائے کرام بساط بھر تخلیقات میں مصروف ہیں ایسے میں بہت کم ایسے ہیں جو عصر حاضر میں اپنے اسلوب کے باوصف نام پیدا کر پائے ہوں. انہیں میں ایک قدآور نام رئیس الدین رئیس کا ہے جن کا تعلق بھارت سے ہے غزل گوؤں کی بھیڑ میں انہیں الگ شناخت دینے میں ان کے کلام کی ندرت , منفرد ردیفوں نئے مضامین کو کلیدی حیثیت حاصل ہے خوشگوار امر یہ بھی ہے کہ ان کی غزل جدید مضامین سے مصافحہ کرتے ہوئے بھی رویت سے پورے طور پر منسلک نظر آتی ہے ان کی شاعری دور جدید میں ہونے والے بے تکے تجربوں اور لایعنی خیالات سے پرے ایک ایسے چھتناور درخت کی سی ہے جس کی جڑیں کلاسیکی زمین میں بہت گہری ہیں. رئیس الدین رئیس کا حال ہی میں منظر عام پر آنے والا شعری مجموعہ شہر بے خواب ایک شاعر کی فنی دستگاہ کی عمدہ مثال ہے یہ کتاب نہ صرف قارئین میں پذیرائی حاصل کر رہی ہے بلکہ جدید غزل پر بھی گہر ے اثرات مرتب کر ے گی۔
.
رئیس الدین رئیس کے کلام کا ایک بڑا وصف ان کی غزلوں کی چھوٹی منفرد اور چونکا دینے والی تروتازہ دریفیں ہیں جنہیں استعمال میں لاتے ہوئے وہ بے ساختہ شعر کہتے چلے جاتے ہیں نئی اور زرخیز زمین تلاش کرنا جان جوکھوں کا کام ہے مگر انہیں اس پر خاص دسترس حاصل ہے موجودہ ادبی منظر نامہ میں بہت کم شعرا نے عام ڈگر سے ہٹ کر لیں ردیف کا استعمال کیا ہے. تاہم طویل ردیف پر بھرپور اشعار کہنا بھی ہر شاعر کے امکان میں نہیں ہوتا. انہوں نے اردو غزل کو نئی اور اچھوتی ردیفوں سے متعارف کرایا ہے اور یوں ادب میں گراں قدر اضافہ کا باعث ہوئے ہیں نئی زمینوں پر طبع آزمائی کا ایک اور خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ شعر میں نئے مضامین کا ظہور ہوتا ہے اور گنجینہ معنی کے نئے در وا ہوتے ہیں ان کی منفرد ردیفوں نے شعروں کو تازہ کاری کے خزانوں سے بھر دیا ہے اس سے پتی چلتا ہے کہ شاعر عام ڈگر سے ہٹ کر اپنا راستہ خود بنا کر چلنے کا عادی ہے ان کے مجموعہ کلام شہرِ خواب میں منفرد اور اچھوتےردائف کی کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہے اس ضمن میں چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔
خود کو ڈھونڈا تو پایا اپنا سراغ غائب
تمام دن تھا نظر میں شب کو چراغ غائب
کچھ ایسا الجھا قلم کی کاغذ کی گردشوں میں
جب اپنے بارے میں چاہا سوچوں دماغ غائب
طلب ہے سر کی طرف اس کی خانقاہ جھکے
یہ بات باعث توہین ہے کہ شاہ جھکے
میں پڑھ رہا ہوں نئے وقت کی نئی تہذیب
ادب سے ہو پیش نظر تو کیوں مری نگاہ جھکے
یہ چاند بھی ہے تمہارا تارا اخی
ہمارے حصے میں آیا فقط خسارہ اخی
مجھ کو بھی اب دکھا دشت سیارگاں
درد کا آئینہ دہشت سیارگاں
میں بھی تیار بیٹھا ہوں پابہ سفر
مشکلیں کچھ بڑھا دشت سیارگاں
سورج کا مرثیہ جو لکھاہے تمام دن
تاریخ شب جو آئے تو اس کو سنائیو
کیاسامنے دیکھو کے پلکیں بھیگ رہی ہے
لگتا ہے کہ سورج کی چمک بھیگ رہی ہے
کچھ دیر تو رک جائے یہ بے وقت کی بارش
پکتی ہوئی فصلوں کی مہک بھیگ رہی ہے
لفظ بے معنی کہاں اے ساعت حیران کن
سر پر ساتوں آسماں اے ساعت حیران کن
ہر طرف ہو کا سماں اے ساعت حیران کن
ہر طرف ہے دشت جاں اے ساعت حیران کن
شہر بے خواب کی بڑی خوبی کلام کی سلاست اور روانی قرار دی جائے سکتی ہے. اگرچہ ان کے اشعار پرت در پرت معنی لیے اور استعارات میں ملفوف ہیں تاہم سادہ گوئی کی طرف آتے ہیں تو اس رویت کے امیں ٹھہرتے ہیںجو مقلدین میر کا خاصہ رہی ہے۔
.
مجھے یاد پڑتا ہےکہ کوئی کم و بیش بیس برس ادھر ,آ ل انڈیا ریڈیو پر دوپہر ڈھائی بجے مشاعرہ تھا.یہ جمعہ کا دن تھا اور میں کارِ جہاں سے بے نیاز مشاعرہ سننے میں منہمک تھا. میزبان نے رئیس الدین رئیس کا نام پکارا اور پھر ان کی سحر انگیز آواز میں تحت الفظ کلام جاری ہوا.بعد میں وہ کلام مجلہ اوراق میں ذرا سی ترمیم کے ساتھ شائع ہوا..وہ شعر مجھے اب بھی یاد ہیں.
منکشف دریا کا جب باطن ہوا
یک بیک آب رواں ساکن ہوا
ہم سے کب تر ک انا ممکن ہوا
بند بوتل میں کہاں یہ جن ہوا
شہر میں رقصاں ہوئی آسودگی
درد کی دولت کا میں خازن ہوا
میری جان اور مال کا طالب رئیس
کل عدالت میں میرا ضامن ہوا
ان کے حالیہ شعری مجموعے میں کلام کی سلاست اور روانی ملاحظہ فرمائیں .
گھر سے مانوس کر رہی ہو گیا
مجھ کو محبوس کر رہی ہو کیا
درد اٹھا ہے میرے سینے میں
تم بھی محسوس کر رہی ہو کیا
کچھ دیر تو رک جائے یہ بے وقت کی بارش
پکتی ہوئی فصلوں سے مہک بھیگ رہی ہے
رئیس الدین رئیس کی شاعری کا فکری حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ان کے اشعار میں منظر نامہ کی سٹل فوٹوگرافی نظر آتے ہیں. ان کی کتاب شہرِ خواب ایسی ہی تصاویر کا البم ہے. شہر بے خواب بلاشبہ ای ایسی اصطلاح ہے جو دور جدید میں کا ضطراب خود میں سموئے ہوئے ہے. حالات کی نوحہ خوانی کرتے ہوئے درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں
کہیں کہیں تو جگہ بھی نہیں ہے رکھنے کی
کبھی کبھی کسی کے گھر میں کھلونا آتا ہے
اسے خبر ہی نہ تھی شہرِ بے سلیقہ کی
جو رہتا گاوں میں ہی باشعور ہو جاتا
شھر پرآشوب ہے, تو یہ تو چلایا کہاں
ہر طرف آشفتگاں اے ساعت حیران کن
میری جان اور مال کا طالب رئیس
کل عدالت میں میرا ضامن ہوا
زیر نظر کتاب میں آزاد نظمیں ان کے جدید رجحانات کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں ان کی غزلوں کی طرح ان کی نظموں میں بھی بدلتی روایات کی جھلکیاں اور حالات سے سمجھوتا کے اپنے انداز ملتے ہیں ان کی ایک خوبصورت نظم ملاحظہ فرمائیں جس کا عنوان ہے مشورہ
مشورہ
کاغذ کے پھولوں سے
تم عطر کشید نہیں کر سکتے
لیکن اتنا تو کر ہی سکتے ہو
کاغذ کے پھولوں میں
روزانہ
تم تھوڑا سا
عطرلگا دو
تھوڑی دیر انہیں
کتاب میں شامل ان کی دیگر نظموں میں
صدیوں کی نیند, نوشتہ غم ,کا ش , گمشدہ درخواست کو ان کی نمائندہ نظمیں قرار دیا جاسکتا ہے۔