Ticker

6/recent/ticker-posts

|محقق صحافی نقاد مترجم ستارطاہر تحریر:اشفاق شاہین

 

Sattar Tahir Ek Adeeb|article by Ashfaq Shaheen.published Daily pakisran


ڈاکٹر چارلس ڈکنز کے ناول کا ترجمہ دو شہروں کی کہانی رچرڈ برٹن کے ناول کا ترجمہ حسن زرگر اور مارک 

ٹوین کی کتاب شہزادہ اور فقیر ان کی ترجمہ نگاری پر دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہیں


اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود بلاکے زود نویس تھے .ان کی ان ہی 

خصوصیات کی بنا پر انہیں قلم مزدور کا نام بھی دیا جاتا ہے

 

ستار طاہر کو بچھڑے ہوئے برسوں گزر گئے. ان کی شخصیت ادبی حوالے سے کئی جہتوں کی حامل تھی وہ بیک وقت محقق ,صحافی,نقاد مترجم اور تخلیق کار تھے .اپنے ادبی سفر کے دوران انہوں نے ہر موضوع کا احاطہ کیا ستار طاہر عالمی ادب کی جدید لہر سے پوری طرح آشنا تھے بالخصوص انگریزی ادب پر گہری نظر رکھتے ہوئے انہوں نے کی معروف کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا .یوں ان کا قلم کاری اور بین الاقوامی ادب کے درمیان رابطے کا کام کرتا رہا اردو ادب کینوس وسیع کرنے میں ان کے تراجم خصوصی اہمیت کے حامل ہیں. ڈاکٹر چارلس ڈکنز کے ناول کا ترجمہ دو شہروں کی کہانی رچرڈ برٹن کے ناول کا ترجمہ حسن زرگر اور مارک ٹوین کی کتاب شہزادہ اور فقیر ان کی ترجمہ نگاری پر دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہیں. انہیں ادراک تھا کہ ترجمہ کافن در اصل حقیقت کو ساتھ لیکر چلنے کا نام ہے.ستار طاہر متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کی مشکلات سے آگاہ تھے. اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود بلاکے زود نویس تھے .ان کی ان ہی خصوصیات کی بنا پر انہیں قلم مزدور کا نام بھی دیا جاتا ہے.


Sattar Tahir Ek Adeeb|by Ashfaq Shaheen.published in DailyPakisran
Sattar Tahir Ek Adeeb|by Ashfaq Shaheen.published in DailyPakisran


 ستار طاہر کی شخصیت ایک مضبوط نظریہ حیات کے زیر اثر تھی وہ انسان سے مساوی سلوک اور بنیادی حقوق کے خواہاں تھے.غربت اور معاشرتی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع رہا.پیپلزپارٹی سے قلبی شغف بھی ان کی قلم سے گہری وابستگی کا کا باعث قرار دیا جاسکتا ہے.اسی کے زیراثر انہوں نے راتوں رات اپنی کتاب زندہ بھٹو مردہ بھٹو تحریر کا ڈالی. یہ وہ دور تھا جب کوئی تحریر نگار یا پبلشر ایسی کسی کتاب کی اشاعت کی جرات نہیں کر سکتا تھا یا مصیبت مول نہیں لے سکتا تھا. انہوں نے بچوں کے لیے بھی مختلف کتابیں تحریر کیں. ان میں ان کی بنیادی نفسیات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا انہوں نے مقامی پبلشرز کے تعاون سے عمومی دلچسپی کے موضوعات پر "آسانی سے دوست بنائیں" "اپنی قوت ارادی بڑھائیے" "عشق کا چھکا" جیسی کتابیں تحریر کیں 


ستار طاہر اپنی ہمہ جہت شخصیت کے تحت جہاں مترجم اور تخلیق کار تھے وہیں ان کا صحافتی سفر بھی اپنے اندر ایک لمبی داستان سموئے ہوئے ہیں انہوں نے مختلف جریدوں کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے ہیں. فلمی ہفت روزہ "ممتاز" کی بھی کامیاب ادارت کی بلکہ اسلامی کہانیاں بھی تحریر کیں. ان کی تحریر کردہ کتب کی تعداد اڑھائی سو سے تجاوز کر جاتی ہے.ان کی شب روز کی خدمات کے باوجود معاشی زبوں حالی نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا انہوں نے اپنی زندگی ایک سچے قلمکار کی طرح اپنے نظریہ حیات کے تحت گزاری. 


ادبی حوالے سے غیر ملکی تخلیقات کے اردو ترجمہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ستار طاہر کا نام لیے بغیر بات ختم نہیں ہوتی.ان کی وفات کے بعد ادبیات, سپوتنک اور دیگر اخبارات و جرائد نے ان کے فکر و فن پر خصوصی مضامین شائع کیے بعد از مرگ انییں حکونت کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا. افسوس کہ پاکستان میں متشدد روایات کامخالف, مساوات کا علمبردار اور غریب طبقے کا نمائندہ یہ تخلیق کار ساری زندگی گردشِ ایام کا شکار رہا .مگر اس کے باوجود ادب کی شاہراہ پر اپنے افکار و خیالات کے قمقمے روشن کرتا رہا اور پھر 25 مارچ 1997 کو حالات کے کسی نیم تاریک کونے میں اپنا قلم تھا مے خاموشی سے کاتب تقدیر کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا۔(مطبوعہ روزنامہ پاکستان،ادبی صفحہ26 جمعہ مارچ2010 تحریر:اشفاق شاہین)