Ticker

6/recent/ticker-posts

طوافِ گل۔طلسمِ خیال کی جدّت۔تحریر:پروفیسرسید غلام مجتبی

 

اشفاق شاہین کا مجموعہ کلام طوافِ گل



طوافِ گل ۔۔۔ طلسمِ خیال کی جدّت


تحریر:پروفیسرسید غلام مجتبی


اشفاق شاہین کے مجمو عہ کلام طواف گل پر ایک تبصرہ


آج کل سطح بینی کے اس دور میں اردو زبان و ادب کی حفاظت اوراس سے محبت کرنے والے بہت کم لوگ نظر آتے ہیں ایک دور تھا جس میں مولانا ظفر علی خاں،آغا شورش کاشمیری اور ابنِ انشا مرحوم جیسے صاحبانِ قلم اپنی ادبی لذت آفرینی کی وجہ سے باذوق قارئین کو مسحور کیے رکھتے تھے۔ وہ لامثال شخصیات اپنی کِلکِ گہر بار کے حیات بخش آثار چھوڑ کر دارِ فانی سے رخصت ہوئیں تو آہستہ آہستہ وہ لطافت آگیں ذوق بھی عنقا ہوتا چلا گیا مگر روزنامہ  ایڈیٹر اور پنجاب کالج گجرات میں اردوزبان و ادب کے استادجناب اشفاق شاہین کی جدّت آفریں شاعری نے ان روایات میں پھر سے جان ڈال دی ہے۔


اشفاق شاہین کے ساتھ میرا ساتھ گزشتہ پینتیس برس پر محیط ہے۔ آج کل ہم دونوں پنجاب کالج گجرات میں اردو زبان و ادب کی عملی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ طوافِ گل“ حال ہی میں شائع ہوا ہے اور آج کل اس کی دھوم سوشل میڈیا پر مچی ہوئی ہے۔ میں نے یہ مضمون طوافِ گل کی گل چینی کرتے ہوئے لکھا ہے اور اس بات کا خاص اہتمام کیا ہے کہ میری ان سے دوستی اور محبت سفارش کی تحریک نہ بننے پائے کیونکہ دوستوں پر عموماً جانب داری کا الزام لگ ہی جایا کرتا ہے۔ 


اشفاق شاہین  سادہ اور بے تکلف قسم کے انسان ہیں ۔ ان کا دل عشقِ رسول ﷺ کی گہرائی اور پاکیزگی سے کماحقہ آگاہ ہے جس کا اظہار بڑی دردمندی سے کرتے ہیں۔ اس بدگمانی کے دور میں جہاں بے حیائی نے ہر طرف طلسماتی جال پھیلا رکھے ہیں وہ قرآنِ پاک کو ابدی ہدایت کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔ فرماتے ہیں


یہ پوچھا تھا محبت میں تُو کیا قربان کرتا ہے

اٹھا کر عشق اپنے گھر کا سب سامان لے آیا


کہا اس نے مجھے، اشفاق! سیدھی راہ دکھلاو

اُٹھا اور جا کے الماری سے میں قرآن لے آیا


فرقہ پرستی، سیاسی نفرت انگیزیاں اور کاروباری خرخشے موجودہ زمانے میں اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔ ہر مذہبی شخص دوسرے فرقے کے لوگوں کو کافر اور اپنے آپ کو مومن کہلانے پر مُصر ہے۔ ہر سیاست دان اپنے آپ کو آئین اور قانون کا پابند اور اپنی سیاسی پارٹی کو آئین کی بالا دستی کی امین سمجھتا ہے اور دوسری پارٹی کے تمام سیاست دانوں کو ملکی دولت لوٹنے والے لٹیرے کہ کر خوش ہوتا ہے۔ کاروباری حریف ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس طرح زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں لوگ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائے بیٹھے ہیں۔ ایسے وقت میں وہ یہ بھول جاتے ہےں کہ اتحاد ایک عظیم الشان طاقت کا نام ہے جو گروہوں کو ملت میں گم ہونے کا درس دیتا ہے۔ اشفاق شاہین  اس تمام صورتِ حال کا مکمل ادراک رکھتے ہوئے اسے انتہائی خوب صورتی اور سہلِ ممتنع کی جملہ بلندیوں کو چھوتے ہوئے بڑے اچھوتے اور جدّت کی تمام تر موشگافیوں کو لپیٹتے ہوئے اس طرح گویا ہوتے ہیں۔


مرا خیال ہے نہروں میں بٹ گےا دریا

وگرنہ یہ تو بہت شور کرنے والا تھا


محبت کو پھیلانا اور نفرت کی سیاہی دلوں سے دور کرنا اس دور میں جہاد کی بہترین جہت ہے اور اشفاق شاہین اس جہاد کے لیے کسی کی ڈکٹیشن کا انتظار کرنے والے نہیں۔ان کا ارادہ ان کے شعر میں خو ن کی طرح گردش کرتا نظر آتا ہے۔


یہ تُو نے مجھ سے محبت کا اب کہا پیارے

میں اپنا کام بہر طور کرنے والا تھا


اگر ہم اپنے پیارے وطن کی سیاسی اور اقتصادی صورتِ حال کا مختصر جائزہ لیں ، اس کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کے فرعونوں کے بیانات کو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جو چیز سب سے زیادہ ناپسند ہے وہ انسانوں کی طرف سے تکبر کا اظہار ہے۔ اشفاق شاہین اتنی بڑی حقتقت کو انتہائی سادگی کے ساتھ اس طرح بیان کر جاتے ہیں کہ آدمی مہینوں سوچتا رہے پھر بھی اسے یوں لگے جیسے اس طرح کی بات کہنے میں شاید صدیاں لگ جائیں۔ شعر سنیے اور سر دھنیے۔

اک دیے نے کہا، میں سورج ہوں

پھر ہوا نے بجھا دیا اس کو


ہر شخص کو اپنے محبوب کے ساتھ والہانہ محبت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس کا اپنی نظروںسے دورہونا گوارا نہیں کرتا۔ علامہ اقبال کو آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ سے والہانہ محبت تھی اور اتنی کہ وہ جنت کو بھی اس کے مقابلے میں نظر انداز کرتے ہوئے فرماتے ہیں

یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو

کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں


اسحاق آشفتہ نے اس سلسلے میں اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا

میں تجھ کو اس لیے نظروں سے اوجھل کر نہیں سکتا

کہ کھو جائے تو بینائی بڑی مشکل سے ملتی ہے


احمد فراز اس طرح رقم طراز ہوتے ہیں

قرب جز داغِ جدائی نہیں دیتا کچھ بھی

تُو نہیں ہے تو دکھائی نہیں دےتا کچھ بھی

اشفاق شاہین اسی کیفیت کو اپنے مخصوص اور جدّت آمیز انداز میں یوں بیان کرتے ہیں


زمانے بھر کا لطفِ آشنائی کچھ نہیں دیتا

ہمیں جب تم نہیں ملتے سجھائی کچھ نہیں دیتا


غالب نے ضعف کی حالت میں اپنی آرزو کو ان الفاظ میں پیرایائے اظہار عطا کیا

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے


لیکن اشفاق شاہین نے جدّت طرازی کرتے ہوئے اس طرح اپنی خواہش کو الفاظ کا پیراہن پہنایا


دل چاہتا ہے کوئی مرے سامنے رہے

اب عرضِ مدّعا کے توحالات ہی نہیں


اشفاق شاہین کا یہ شعر زمانے بھر کا کرب اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ ایک انتہائی حساس شاعر ہی اس قسم کے اشعار کہ سکتا ہے۔ اس کرب کو محسوس تو سبھی کرتے ہیں اظہار بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ایسے ہی اشعار کے لیے غالب نے یوں بلاغت فرمائی تھی

دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے


اشفاق شاہین کا یہ شعر پڑھ کر آپ کو بھی یہ ہی محسوس ہوگا۔

شب تو اشفاق ڈھل چکی کب کی

کیوں اجالا نظر نہیں آتا


طوافِ گل ایسے ہی بلیغ، معنی خیز اور سہلِ ممتنع کے آسان محاسن سے بھری پڑی ہے۔ آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اشفاق شاہین جےسے شاعر صدیوں کی دین ہوا کرتے ہیں۔