نئی غزل کا تازہ کار شاعر۔اشفاق شاہین
پاکستان کے چندے ماہتاب چندےآفتاب اور ممتاز و منفرد شاعر اشفاق شاہین
کسی تعارف کے محتاج نہیں۔آپ کا نام نامی ادب کے آسماں پر مہر نصف النہار کی طرح
نور افشاں ہو کر ساری اردو دنےا کو زرتاب و شاداب کئے ہوئے ہے۔آپ درس و تدریس کے
فرائض کی انجام دہی کے ساتھ شعر و سخن کی رونقِ محفل بنے ہوئے ہیں۔ایک روزنامہ کے
مدیر و صحافی بھی ہیں ،ساتھ ہی جناب کو پاکستان رائٹرز گلڈ کی ممبر شپ کا اعزاز و
امتےاز بھی حاصل ہے۔
جہاں تک اشفاق شاہین کی شاعری کا تعلق ہے کسی کا یہ مصرع کہ خون دل میں
ڈبو لیں ہیں انگلیاں میں نے،ان پر پوری طرح صادق آتا ہے۔بہ طرز اسلوب اور رنگ و
آہنگ وہ نئی غزل کے ایسے جدید شاعر ہیںجنہوں نے روایت اور تغزل کو دستار فضلیت کی
طرح اپنے سر کا تاج بھی بناےا ہے اور رواےت کی سطحیت اکہرے پن اور کہنگی و فرسودگی
کو اپنے قریب نہیں آنے دےا ۔ےعنی نہ تو پند و نصائح اور وعظ و تبلیغ سے سرو کار
رکھا ہے اور نہ ہی اپنی شاعری میں گل و بلبل لب و رخسار ،خمرےات رندی و سر مستی
،زاہد و محتسب اور ساقی و مے خانہ کو کو ہی مدعو کرنا ضروری سمجھا ہے۔اس کے برعکس
موصوف نے شاعری کوتازگی و تازہ کاری کی جدت سے متصف کرنے کے لئے نت نئے الفاظ و
محاورات اور موزوں ترین استعارات و علامات کو اپنا آلہ کار بناےا ہے بنام جدت کل
بھی بہت سے شاعروں نے گمراہ ہو کر غزل کو ہزل اورچیستاں بنا کر رکھ دےا تھا اور آج
بھی بہت سے شاعر جدت کے نام پر غیر مہذب ،بھونڈے الفاظ اور اپنے تمسخرانہ اسلوب سے
غزل کی پیشانی کا کلنک بنے ہوئے ہیں۔آج تک انہیں ےہ بھی نہیں معلوم کہ جدت ہے تو کیا
ہے۔اشفاق شاہین کے ساتھ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔وہ بخوبی جانتے ہیں کہ غزل بڑی نازک
اور لطیف صنف سخن ہے جو بھونڈے بھدے اور کرخت الفاظ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔وہ اسی
جدت کا خیر مقدم کر سکتی ہے جو اسے تازگی سرشاری سر خوشی اور رعنائی و زیبائی عطا
کر سکے نیز اس میںمتغزلانہ کیفیت کا رچاﺅ بساﺅ بھی موجود ہو۔ہر چند کہ یہ غزل کے
روایتی رنگ سے ذرا مختلف ہوتا ہے،جدت اور ابہام بھی ہوتا ہے۔مگر شعر کو لا ےعنیت و
مہملیت سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ ضروری بھی ہے کہ ابہام کی پرت دبیز نہ ہو بلکہ
باریک اور
transparent ہو
تا کہ معنی تک رسائی ممکن ہو سکے۔
اشفاق شاہین نے ان تمام کام کی باتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کربے عدیل و
بے نظیر اور بہترین شاعری کی ہے۔اس پر بھی انہیں خود پر نہ فخر ہے نہ گمان۔وہ سامعین
و قارئین کی رائے جیسی بھی ہو اس کا خیر مقدم کرتے نظر آتے ہیں۔ساتھ ہی انہیں فخر
بھی ہے کہ ان کے تکلم میں رچاﺅ بساﺅ موجود ہے اور موسیقیت و حلاوت کے اعتبار سے ان
کے اشعار اپنے آپ میں بلبل کے نغموں کی جھنکار لئے ہوئے ہیں۔یہ بات ان کے درج ذیل
اشعار سے بھی مستنبط ہے
میں شاعر ہوں مرے اشعار سے اندازہ کر میرا
میں اشفاق اپنے بارے میں صفائی کچھ نہیں دیتا
۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
غزل نے ہاتھ مجھ پر رکھ دےا کیا
تکلم میں رچا ﺅ آگےا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اشعار پڑھتا کون آتا ہے گلستاں میں
مثالِ نغمہ ءبلبل کوئی جھنکا ر آتی ہے
اشفاق شاہین بڑی سے بڑی بات کو نئے نئے غیر روایتی الفاظ میں تشبیہات
استعارات اور علامات کے وسیلے سے اور ہلکے سے ابہام کے ساتھ اس طرح پیش کرتے ہیں
کہ معنی کے اسرار و رموز کا مکاشفہ خوش گوارحیرت اور سرخوشی و مستی کا سبب بن جاتا
ہے ساتھ ہی طرز اظہار کی جدت بھی داد وصل کر لیتی ہے۔
میں کچی روشنائی سے بنے اک شہر جیسا ہوں
کسی کا اشک کافی ہے مجھے مسمار کرنے کو
بزرگوں سا سمجھتا ہوں گھنے پیڑوں کو بستی میں
زمانہ کاٹ دیتا ہے چھتیں تیار کرنے کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ےہ کس نے کہہ دےا تم سے کہ انساں مر بھی جاتے ہیں
چلو آﺅ تمہیں سقراط کا قصہ سناتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روکنا اشفاق شاہیں وہ گھٹاﺅں کا ہمیں
اور تپتی ریت پر ہم کو بھگونا دیر تک
یہ گھٹائیں کون ہیں اور تپتی ریت میں بھیگنا کیا ہے جیسے ہی علم میں
آتا ہے خوشگوار حیرت زیرلب مسکراہٹ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ذیل کے شعر میں بھی بیوی
بچوں کا برآمد ہونا حےرت زا ہے۔
بہت شب ہو گئی اشفاق شاہیں گھر چلے جاﺅ
ردیفیں ےاد کرتی ہیں قوافی گھر بلاتے ہیں
تہذیبی قدروں کے زوال اور مادیت کے انتہائی عروج سے خیر و شر اور نیکی
و بدی کی تفریق مٹ جانے پر سماج ابتری کاشکار ہوا ہے اور خود غرضانہ انسانی رویے
سے زخمی انسانیت کراہ اٹھی ہے۔معاشرے کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں بد
عنوانےاں نہ در آئی ہوں ایسے میں انسانی مصائب و مشکلات میں اضافہ قدرتی بات
ہے۔عصر حاضر کی ایسی ہی تلخ سچائیوں کو اشفاق شاہین نے بھی شعری اظہار کا لباس
فاخرہ تن کرا دےا ہے۔ملاحظہ فرمائےے:
سےاست میں عنایت کے عجب معےار ہوتے ہیں
صفِ ماتم جو بچھ جائے تو پھر امدا دآتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
دلوں کو کاٹنے کے واسطے احباب ہوتے ہیں
دلوں کے کاٹنے کے واسطے آری نہیں ہوتی
۔۔۔۔۔۔۔۔
لہو بہتا ہوا دیکھا ہے ےوں اشفاق شاہیں
پریشاں خانہءمسجود میں بیٹھا ہوا ہوں
غزل کی اساس ہی عشق محبت سے ہے۔لہذا حکاےاتِ دل با ےار گفتن کے مصداق
اشفاق شاہین نے بھی فرسودہ اور پائمال الفظ سے عاری اس نوع کے نہاےت متنوع اور دل
پذیر اشعار خلق کئے ہیں:
بے وفا تیری جفائے ناگہاں سے
شہر کہتا ہے ہمیں نکلو یہاں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو اشفاق شاہیں ہم طوافِ شہر کرتے ہیں
ہمیں تنہائی میں اک بے وفا کی ےاد آتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے فرہاد کہتا تھا اجیرِحسن مت ہونا
بجز اک سکہءبے اعتنائی کچھ نہیں دیتا
بے گھری و بے دری کا کرب محسوس کرنا ہو تو اس کے لئے شاعر کا یہ شعر
ہی کافی ہے
شہر کی سڑکوں پہ بھیگی رات میں چلتے ہوئے
ہم کو ےاد آتا رہا گھر کا بچھونا دیر تک
اور ماضی سے بچھڑنے کا کرب بھی ملاحظہ ہو
جب اک پیغام برقی پر مباکباد آتی ہے
رواےت پھول بھجوانے کی ہم کو ےاد آتی ہے
صدق دلی اور حوصلہ ےقیناً بڑی مفید اشیاءہیں جو شاعر کا تجربہ بن گئی
ہیں
میں صدقِ دل سے جاتا ہوں کسی سے پےار کرنے کو
سو رستے خود ہی بن جاتے ہیں درےا پار کرنے کو
کاہلی اور بے عملی ناکام زندگی کا اعلامیہ ہی تو ہیں:
عجب کچھ بے عمل ہیں بے بصر ہیں بے ہنر ہیں ہم
پرانی داستانوں کے کسی کردار جیسے ہیں
اشفاق شاہین کی شاعری کی بہت سی جہات اختصار کی تنگ دامنی کی نذر
ہوگئی ہیں۔انشا اللہ کتاب آنے پر مفصل لکھوں گا
رئیس الدین رئیس
دہلی گیٹ
علی گڑھ (انڈیا)
2017
Nai Gazal Ka taza Kar Shayar Ashfaq Shaheen|
نئی غزل کا تازہ
کار شاعر۔اشفاق شاہین