علامہ قبال کے فلسفہ خودی کی اہمیت |
علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کا مفہوم
علامہ اقبال کا شمار اردو کے معروف شعرا میں ہوتا ہے۔ان کی
شاعری اگر چہ مخصوص حالات میں لکھی گئی اس کا مقصد ہندوستان کے عوام بالخصوص
مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنا اور انہیں آزادی کی اہمیت بتانا تھا۔اگر چہ
وہ وقت گزر چکا مگر ان کا پیغام آفاقی
ہے۔ بعض نقاد انہیں ایک خاص دورکا شاعر کہتے ہیں۔لیکن آج بھی ان کی شاعری بڑی دل
چسپی سے پڑھی جاتی ہے۔اقبال کے فلسفہ خودی کو کو خاص طور پر بہت شہرت ملی اور یہ
ان کے کلام کا خاص رنگ بن کر ابھرا۔اقبال کی شاعری اور اس کے فلسفہ خودی کو سمجھنے
کے لیے اس دور کے حالات کو جاننے کی ضرورت ہے۔یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوستان غلامی
کے دور سے گزر رہا تھا۔اگرچہ ہندوستان کے تمام طبقے غلامی کے مصائب کا شکار تھے
مگر مسلمانوں سے چوں کہ حکومت چھینی گئی تھی اس لیے وہ خاص طور پر عتاب کا شکار
تھے۔بار بار آزادی کی تحریکیں ناکام ہوجانے پر مسلمان ہمت ہار چکے تھے اورحالات
سے سمجھوتہ کرکے زندگی کے دن پورے کر رہے تھے۔یہی حالت ان کے سیاسی رہ نمائوں کی
بھی تھی۔
ایسے حالات میں ضروری تھا کہ انہیں عزم و حوصلہ اور ہمت نہ
ہارنے کا پیام دیا جاتا۔تاکہ وہ ایک بار پھر آزادی کے حصول کی خاطر میدان عمل میں
اتریں۔ایسے میں علامہ اقبال نے اپنے پیغام کے ذریعے انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب
دی۔انہوں نے بتایا کہ ہندوستانی قوم کی اپنے آپ میں خودداری پیدا کرنی چاہیے۔انہیں
اپنی اہمیت اور طاقت کا اندازہ کرکے آزادی کے راستے کا انتخاب کرنا چاہیے۔
علامہ اقبال کی شاعری میں خودی سے مراد نہ تو خود پسندی یا
خود پرستی ہے اور نہ ہی انہوں نے اس کو غرور کے معنی میں استعمال کیا ہے بل کہ
اقبال جب خودی کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد خود شناسی ہوتا ہ۔یعنی انسان کود کو
پہچانے۔انہوں نے اپنے فلسفہ خودی کے مختلف مدارج بتائے ہیں۔جن کو طے کرتا ہوا وہ خودی
سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔بقول میاں بشیر احمد۔۔۔۔
اقبال کا خیال ہے کہ انسان اطاعت،نیابت الہی،ضبط نفس کی تین
منزلیں طے کر کے خودی کی انتہائی بلندی کو چھو لیتا ہے۔
علامہ اقبال اپنی شاعری میں بالخصوص مسلمانوں پر یہ واضح
کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں خود شناسی کے لیے خدا پر پختہ ایمان رکھنا ہوگا۔یوں انہیں
اپنے مقام کے بارے آشنائی ہوگی کہ خدا نے انہیں صرف اپنے آگے جھکنے کے لیے پیدا
کیا ہے۔اور انساں کی ذات معمولی نہیں ہے۔ہر انسان اپنے اندر ایک بے مثال تخلیق ہے
اور اس بات کی متقاضی ہے کہ انسان خدا کے سوا کسی کا احسان مند نہ ہو۔جب انسان کے
اندر خود شناسی یا خودی کا جوہر پیدا ہوتا ہے تب وہ جان لیتا ہے کہ خدا ہی وہ ہستی
ہے کہ جو خالق و مالک و رازق ہے ۔اس طرح اس کے اندر برائی سے ٹکر لینے کا جذبہ
ابھرتا ہے۔
اقبال نے اپنی شاعری میں مختلف مواقع پر مسلمانوں کو ان کے اباو
اجداد کی بہادری کی مثالیں پیش کی ہیں۔وہ دلوں میں سچائی اور بہادری کا جذبہ
ابھارنے اور برائی کے خلاف ڈٹ جانے کے لیے کبھی یہ بتاتے ہیں کہ زور حیدری پیدا
کرنے کی ضرورت ہے تو کبھی سلمان فارسی کی مثال دیتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح دارا
کے غرور کو خاک میں ملایا گیا۔
علامہ اقبال نے اپنی فارسی مثنوی ارسرا خودی اور رموز بے
خودی میں کئی مثالوں سے واضح کیا ہے کہ جب انسان خود کو بھلا دیتا ہے تو وہ وہ
اپنے مقام سے گر جاتا ہے۔اقبال اپنی مذکورہ مثنوی میں ایک شیر کی مثال دی ہے جو
جنگل چھوڑ کر آدابادی میں آگیا تھا اوور اس نے بھیڑ بکریوں کے ساتھ رہنا شروع
کردیا تھا۔وہ گھاس کھنے لگا اور جب گڈریا بھیڑوں کو چھڑی دکھا تو وہ بھی بھیڑ
بکریوں کے ساتھ ڈر کر بھاگنے لگتا ۔ایک دن ایک شیر کا ادھر سے گزر ہوا اس نے اسے
دیکھ کر افسوس کیا اور اسے شان دار ماضی یاد دلایا۔شیر نے اپنی ہستی پہچانی اور کھویا
ہوا وقار حاصل کیا۔اقبال اپنے فلسفہ خودی کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب پہاڑ
اپنا آپ چھوڑ دیتا ہے تو ریت کے ذروں میں تبدیل ہوجاتا ہے اور دریا اس کی ریت بہا
لے جاتا ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری خودی کے پیغام سے بھری پڑی ہے۔بلکہ ان
کے ہاں صرف ایک ہی پیغام ہے اور ان کی ساری شاعری اس پیام کے گرد ہی گھومتی ہے۔اقبال
خودی کے پیکر کو کبھی شاہین کے نام سے پکارتے ہیں تو کبھی اسے مرد مومن کہتے ہیں۔
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی مسلمانوں کو یہ درس دیتا نظر
آتا ہے کہ غلامی کی زنجیر صرف اور صرف ذوق یقیں سے کٹ سکتی ہے اور جب خدا کے عشق
کے طفیل خود شناسی کی خوبی انسان میں پیدا ہوجائے تو ناممکن نظر آنے والی چیزیں
ممکن ہوجاتی ہیں۔انسان ایک جست میں زمیں سے آسماں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔غلام
قومیں بادشاہی کے اسرار و رموز سے آگاہ ہو کر دنیا کی بادشاہت حاصل کر لیتی ہیں۔اقبال
کے خیال میں جیسے انسانی زندگی کی ابتدا اپنی خودی سے آگاہی ہے اسی طرح اس کی
انتہا یہ ہے کہ انسان اس کو دن بدن مستحکم کرے۔اقبال اس کے حصول کے لیے عشق الہی
کو رہ نما بنانے کی ضرورت پہ زور دیتے ہیں۔
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی ایک آفاقی پیغام ہے۔وہ اس امر
کا درس دیتے ہیں کہ یہ گوہر دنیا کے بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں ملتا۔وہ انسان کو
وقتی مراعات سے دور رہنے اور آفاقیت کے ساتھ رشتہ بنائے رکھنے پوزور دیتے ہیں۔ان
کے نزدیک جب قوم کے جوجوانوں میں خودی کا جوہر کھلتا ہے تو ان کی نظر آسمانوں کو
اپنی منزل بناتی ہے۔
دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کی
اہمیت فرق کم نہیں ہوئی ہے۔بلکہ دن بدن اس کی اہمیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔یہ خودی
کا یہ پیام صرف ایک طبقہ کے لیے نہیں بلکہ امن کے ہر متلاشی کی ضرورت ہے۔اگر چہ
انہوں نے یہ شاعری اس دور میں کی جب برصغیر کے عوام غلامی کی زندگی بسر کر رہے
تھے۔