Ticker

6/recent/ticker-posts

Ishtiaq Zain Ki Shairy|اردوشاعراشتیاق زین کی شاعری

اردو شاعری جدائی, اردو شاعری محبت اور دوستی,اردو شاعری,

 

تحریر:اشفاق شاہین

جہلم Jhelum  وہ سرزمیں ہے جس نے اردو ادب کو نابغہ روزگار شخصیات سے نوازا ہے۔ یہ اقبال کوثر کی ریاست ہے اور اشتیاق زین اسی اقلیم ادب سے ہے۔ان کی اردو شاعری  پر مشتمل ان کا مجموعہ کلام ’’فرقتوں کے موسم میں‘ گزشتہ دنوں زیرمطالعہ رہا ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد میں اپنے آپ کو اقبال قمر کی اس رائے سے پوری طرح متفق پاتا ہوں

’’زین نے کلاسیک اساتذہ کا بھرپورمطالعہ کیا ہوا ہے وہ ان کے کام آرہا ہے‘‘


ان کی شاعری باالخصوص غزلیات بلحاظ اسلوب  پوری طرح غزل کی شاندار روایت سے جڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ان کی اردو شاعری محبت اور دوستی کا روزنامچہ ہے۔ ۔دور جدید نےغزل کے روایتی لب و لہجہ کو خاص طور پر مجروح کیا ہے۔ غزل میں اب اور تو سب کچھ موجود ہے مگر محبوب کا تذکرہ نہیں۔ عشوہ و ناز و ادا نہیں ۔جدید روش کے پیش رو اس حق میں بڑی دلیل دیتے ہیں۔ مجھے اس پر منور رانا کا ایک شعر یاد آ رہا ہے


بھلا سچ بولنے سے شعریت مجروح ہوتی ہے

تکلف برطرف قاتل کو قاتل لکھ دیا جائے


تاہم غزل کے نئے رنگ ڈھنگ کے حوالے سے جتنے بھی دلائل دیئے جائیں یہ حقیقت ہے کہ عشق و محبت کا جذبہ انسان کے ساتھ پیدا ہوا اور ہزاروں،لاکوں سال کی مسافت طے کرتا ہوا اس کے ہم قدم کرہ ارض پر پروان چڑھا۔جب تک انسان رہے گا ،محبت کے غم اور عشق کے دکھ سکھ بھی رہیں گے ۔اشتیاق زین کی غزل ان ہی جذبوں سے رچی بسی ہے۔


’’فرقتوں کے موسم‘‘ میں کی فہرست نظراک ہی میں قاری کو اس بات سے پوری طرح متعارف کرا دیتی ہے کہ انہوں نے مضمون بندی کے لیے جذبات و احساسات  کے ہزاروں رنگوں میں سے کون سے رنگ اپنے تخیل کے برش سے پینٹ کرنے کو انتخاب کیے ہیں۔ شاعرردیف کا چناؤ یا تو شعوری طور پر کرتے ہیں یا لاشعوری طور پر یہ انتخاب عمل میں آجاتا ہے ۔دونوں صورتوں میں ردیف شعر کے مضامین پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ اشتیاق حسین کی شاعری میں داخلیت کی لہر ان ردائف سے پوری طرح آشکار ہوتی ہے انہوں نے اکثر غزلوں میں  ’’میں ‘‘کا صیغہ استعمال  کرکے اپنی اندرونی کیفیت کو شعر میں ڈھالا ہے۔ ان کی غزلوں میں ردیف ’’سمجھا تھا میں، صبا ہوں میں، دستار کو میں، دنیا میری،کھڑا ہوں میں، مثال میں پیش کی جا سکتی ہے ردائف کہہ دوں، آیا ہوں، صبا ہوں، دیکھ رہا ہوں کو بھی اسی قبیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ان کی غزلوں کی بیش تر ردیفیں فعل امر پر مشتمل ہیں اورقاری کو دعوت عمل دیتی ہیں۔ مثلا ابھی دیکھ ،لطف اٹھا، رہائی دے، سوچ لیجیے ، لگادی جائے وغیرہ


ان کے حالیہ مجموعہ کلام میں 55 غزلیں اور تیرہ نظمیں شامل ہیں۔ نظم پابند اور ساتھ نظم آزاد کے قالب میں کہی گئی ہیں اگر فنی حوالے سے دیکھا جائے تو ’’فرقتوں  کے موسم  میں‘‘کی بیشتر شاعری کا بحر رمل اور اور بحر خفیف میں ہے۔ یوں یہ بحور ان کی پسندیدہ بحور کہلاسکتی ہیں۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان کی تمام آزاد نظمیں ایک بحر میں ہیں۔ لانجائنس Longinus  نے کہا تھا کہ بہترین ادب کی تخلیق روایت سے وابستگی کے بغیر ممکن نہیں۔لگتا ہے اشتیاق زین اس نکتہ کو بخوبی سمجھتے ہیں ۔کتاب میں کئی اشعار ایسے دل نشیں ہیں کہ قاری کی توجہ فوری طور پر اپنی طرف جذب کر لیتے ہیں اور باردیگر پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ الغعرض اردو شاعری کے خزانے پر نگاہ ڈالی جائے توای بڑا حصی غمگین شاعری پر مشتمل نظر آتا ہے۔اسی دکھی شاعری نے شعرا کی بڑی تعداد کو شہرت سے ہم کنار کیا یہی شے اشتیاق زین کی شاعری کا اہم رنگ ہے ان کی کتاب سے کچھ منتخب اشعار قارئین کی نذر ہیں۔


درحقیقت آپ کیا تھے اور کیا سمجھا تھا میں

ہائے خوش فہمی کے صرصر کو صبا سمجھا تھا میں

 

کارسازی تھی جنون کی کچھ خطا میری نہ تھی

اک فریبِ آرزو کو، نقش پا سمجھا تھا میں


عشق نے دیوانہ مجھ کو اس قدر جاناں کیا

چاند چمکا تھا فلک پر رخ  ترا سمجھا تھا میں


قافلہ دل کا لٹا تو سوچنا مجھ کو پڑا

رہ زنی تھا کام اس کا،رہ نما سمجھا تھا میں


تھا وجود ذات جیسے بلبلہ پانی پہ ہو

خود فریبی زین دیکھو، دیرپا سمجھا تھا

۔۔۔

جھوٹ کہتے ہیں نور ہے دل کا

عشق فتنہ حضور ہے دل کا


روتی رہتی ہیں رات دن آنکھیں

جب کہ ہوتا قصور ہے دل کا


ہم نہ کہتے تھے با آجاو

یہ محبت فتور ہے دل کا


عقل سے بد گمان رہتا ہے

یہ صریحا قصور ہے دل کا


درد جاگیر ہے مرے دل کی

زخمِ تازہ غرور ہے اس کا


یونہی قابض نہیں وہ سوچوں پر

ہاتھ اس میں ضرور ہے دل کا


رنگ جس پر نہیں کوئی میرا

وہ ہی چہرہ سرور ہے دل کا


وصل کی آرزو بھی زین ہو کیوں

ہجر بھی تو غرور ہے دل کا

 

فرقتوں کے موسم میں کی تقریب رونمائی،منعقدہ جہلم میں پڑھا گیا۔