Poet Masood Hashmi|مسعود ہاشمی کی شاعری |
اردو اور پنجابی کے باکمال شاعر پروفیسر
مسعود ہاشمی مرحوم کا تعلق گجرات سے ہے۔جب میری ان سے پہچان ہوئی تب وہ گجرات سائنس
کالج میں تدریس کے شعبہ سے منسلک تھے۔ میں دوسال سائنس کالج میں بی اے کے درجے
میں زیر تعلیم رہا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ان سے شاید ایک دو بار ہی ملاقات ہوئی۔ ۔تاہم
جب میں نے ایک مقامی اخبار میں ملازمت اختیا
ر کی تو وہ وہاں قطعات کی اشاعت کے سلسلہ میں ان آنے جانے لگے۔میں اس صفحے
کا انچارج تھا ۔جب وہ قطعات چھپنے کے لیے دیتے تو کئی بار وہ سیاسی حوالے ایسے
قطعات بھی دے دتیے جو بہت سخت بے باک ہوتے
تھے۔سچ یہ ہے کہ وہ کچھ لکھتے ہوئے ڈرتے
نہیں تھے۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار زمیندار سائنس کالج میں ایک دانش ور کی کتاب کی
تقریب رونمائی تھی۔مجھے بھی وہاں دعوت تھی۔مجھے رپورٹنگ کرناتھی۔ تقریب رونمائی
شرع ہوئی ۔لوگوں نے صاحب کتاب کی تعریف میں مضامین پڑھے ۔جب ہاشمی صاحب کی باری
آئی تو انہوں نے کچھ گفتگو کی اور پھر بڑے معصوم انداز سے ایک قطعہ پڑھا۔ جسے سن
حاضرین چہروں پرایک غیر متوقع مسکراہٹ پھیل گئی،تقریب کشت زعفران ہوگئی۔قطعہ یہ
تھا۔
تقریب رونمائی
مجتمع ہوگئے ہیں سارے ادیب
بے سروپا مدح سرائی ہے
عامیانہ سی اک کتاب ہے وہ
جس کی تقریب رونمائی ہے
ایک باراخبار کے دفتر رکشے میں آئے ۔میں
نے پوچھا ہاشمی صاحب!آپ کی سوزوکی موٹر
سائیکل کدھر ہے ۔کہنے لگے بیچ دی ہے۔میں نے استفسار کیا کیوں۔کہنے لگے کل گھر سے جی
ٹی ایس چوک آرہا تھا ایک تازہ غزل ذہن
میں چل رہی تھی۔میں اس کے مصرعوں میں الجھا ہوا تھا کہ موٹر سائیکل چوک میں پولیس
کے بیرئیر سے ٹکراکر مجھ سمیت گر پڑی ۔ لوگوں نے مجھے بھی اٹھایا اور موٹر سائیکل
کوبھی اٹھایا،کہنے لگے ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔میں نے سوچا شعر کہنا تو چھوڑ نہیں
سکتا ،موٹر سائیکل ہی بیچ دوںمسعود ہاشمی کی معصومیت کے ایسے کئی واقعات ہیں ۔ سچ
تویہ ہے کہ جو شخص ہر وقت فکر شعر میں کھویا رہے گا اس کے ساتھ ایسے ہی واقعات پیش
آئیں گے۔مسعود ہاشمی بلاشبہ ایک سچے تخلیق کار تھے جن کو شاید خدا نے شعر گوئی کے
لیے ہی بنایا تھا۔ان کی یادیں تازہ کرنے کے لیے ایک الگ مضمون درکا ر ہے۔ان شااللہ
کسی دن
۹۰ کی دہائی میں گجرات کا ادبی منظر نامہ لکھوں گا۔یہاں جو انتخاب دیا
جارہا ہے؛ ان کے مجموعہ کلام ’’پیش دستی‘‘ سے لیا گیا ہے۔مسعود ہاشمی کی شاعری بے
ساختگی،سادگی اور کاٹ دار لہجے کی عمدہ
مثال ہے۔محبت کے اظہار میں ان کا لہجہ بہت معصومانہ اور درویشانہ ہوتا ہے۔لیکن جب
وہ قطعات لکھتے ہیں تو ان کے لہجے کی معصومیت میں کاٹ اورگہرا طنز شامل ہوجاتا ہے
۔وہ گمبھیر سے گھمبیر مسئلہ کو کھلنڈررے انداز میں بیان کرجاتے ہیں اور پڑھنے والے
کے ہونٹوں پر ایک بے ساختہ مسکراہٹ ,چھوڑ جاتے ہیں ایسی مسکراہٹ کہ جس کے پیچھے کئی سوال
پنہاں ہوتے ہیں۔ ۔قطعات میں ان کے پسندیدہ موضوعات میں سیاست،رشتہ داروں کی سازشیں
اور کرپٹ دفتری نظام شامل ہیں۔
کلام سےانتخاب
تجھ سے ملا تھا پچھلے برس ماہِ جون
میں
یادوں کا اک غبار ہے دورانِ خون میں
ناقد بھی کج نگاہ ہیں شاعر بھی کم
نظر
پھیلا ہوا ہے زہر ہمارے فنون میں
بے علم جھوٹی آن کے نشے میں سوگیا
سوراخ کوئی کر گیا گھر کے ستون میں
رہتے ہیں خیرو حسن جہاں میرے منتظر
جاوں گا اس دفعہ بھی میں جولائی جون
میں
صرف اس حسینں سے ربطِ محبت نہیں رہا
لکھی ہیں غزلیات بھی عہدِ جنون میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر محلے میں چار غنڈے ہیں
دھر میں بے شمار غنڈے ہیں
مفت خوری کا جن کو چسکا ہو
ایسے بھی رشتے دار غنڈے ہیں
پیار ۔الفت ،خلوص غم خواری
میرے قبضے میں چار غنڈے ہیں
منتخب ہونے واکے کچھ ارکان
بااثر باوقار غنڈے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل جس کے سرخ چہرے پہ آدھا لحاف تھا
وہ شخص اس قدر تو نہ میرے خلاف تھا
میں تیرے ساتھ جس جگہ چند ایک دن رہا
وہ شہر پرجمال تھا یا کوہ قاف تھا
بس اس میں اور کوئی بھی خامی ذرا نہ
تھی
اچھا تو وہ ضرورتھا،وعدہ خلاف تھا
تم ہر طرح سے مجھ کو بہت ہی پسند تھے
صرف ایک بات پر مجھے کچھ اختلاف تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھ تو اس بات کاتھا
ہر قاتل گجرات کاتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قطعات
ادائیں
یہ ادائیں بڑی سہانی ہیں
مجھ کو بے حد پسند آتی ہیں
بیویاں جب خفا زیادہ ہوں
پھر وہ برتن بڑے بجاتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالم نگار
کام لینا ہے گر اداروں سے
جو میں کہتا ہوں یار بن جائو
چھوڑ کر سب سیاہ دھندوں کو
صرف کالم نگار بن جائو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست دان
بڑا جھک جھک کے ملتا ہے گلی میں
عجب میلان ہوتا جارہا ہے
مرا بیٹا خدا ہی خیر رکھے
سیاست دان ہوتا جارہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوشوارہ
یہ بزرگی کا گوشوارہ ہے
ہو قدم پر گناہ ہوتا ہے
بال جوں جوں سفید ہوتے ہیں
قلب توں توں سیاہ ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتظامیہ
رشوتیں،گفٹ،نذرانے
جو مناسب ہو اہمتام کرو
شہر کی انتظامیہ ہے یہ
اس کا بھر پور احترام کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر
کس قدر سہل ہے یہاں تشخیص
ڈاکٹر کتنے کام کرتا ہے
ایک کی نبض پر ہے ہاتھ اس کا
دوسروں سے کلام کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ازدواجی زندگی
اک طرف ساس اور سسر کی سازشیں
اک طرف سالی کی گہری چال ہے
ازدواجی زندگی اس ملک میں
باسلیقہ شامت اعمال ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکایت
ایک لڑکے نے یہ کہا استاد
لڑکیوں کو پڑھاتے رہتے ہیں
بعد دوپہر اپنے کمرے میں
ان کو تھیسسز لکھاتے رہتے ہیں