|
امین عاصم کی کتاب قریہَ لیلیٰ میرے سامنے ہے اور اس کے مطالعہ سے اٹھنے والی خوشگوار احساسات پر مبنی لہریں میرے دل میں رقص کناں ہیں ۔ ان کی غزلیات پڑھ کر احساس ہو رہا ہے کہ انہوں نے کئی خوب صورت اشعار اردو ادب کو فراہم کیے ہیں ۔ ان کی بیشتر غزلیات دل کو چھو کر گزرتی ہی نہیں بل کہ ایک خوب صورت احساس کا لبادہ اوڑھ کر دل کے کسی کونے میں جاگزیں ہو جاتی ہیں ۔ موجودہ دور میں کتاب چھاپنا فی الحقیقت ایک مذاق سا بن کر رہ گیا ہے، بے شمار لوگ ( میں انہیں شاعر نہیں لوگ ہی کہوں گا) جن کی کئی کئی کتابیں چھپ کر منظرِ عام پر آ چکی ہیں مگر ایک بھی شعر نصیب نہیں ہؤا ۔ الفاظ موڑ کر اشعار کی ہیت دینا اور کام ہے اور شاعری اور شے ہے ۔ اس سلسلے میں امین عاصم خوش قسمت ہیں کہ ان کی پہلی کتاب نے قارئین کو کئی خوب صورت اشعار دِیے ہیں ۔ اُن سے میری ملاقات کم و بیش پندرہ اٹھارہ برسوں پر محیط ہے جب گل بخشالوی کھاریاں میں ادبی تقربات منعقد کیا کرتے تھے وہاں اُن کے کلام کی سوگواریت اور اُن کے سنجیدہ لہجے کی خوشبو لیے ہو ئے اشعار سامعین کے دل میں اُترتے جاتے ۔ اب جو ماہ و سال کی طویل مفارقت کے بعد امین عاصم سے ملاقات ہوئی ۔ ۔ ۔ خد و خال ، ڈیل ڈول میں تبدیلی تھی مگر لہجہ وہی دھیما، سنجیدہ اور پُر وقار سا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امین عاصم کے بعد میں قریہَ لیلیٰ میں چلا گیاتو گویا اس خد و خال سے مزین ایک اور شخص میرے سامنے تھا ۔ امین عاصم سے تھوڑا مختلف اور تھوڑا امین عاصم جیسا ۔ اقبال ساجد مرحوم نے شاعری کو معنوی اولاد قرار دیا تھا، اولاد کی شکل والدین سے تھوڑی جدا ہوتے ہوئے بھی والدین جیسی ہوتی ہے، ہم کسی بچے کو دیکھ کر اندازہ کر لیتے ہیں کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے ۔ یہی صورتِ حال امین عاصم کی کتاب پڑھ کر میرے سامنے تھی، وہی سنجیدگی، وہی اعتدال اور جدا سا پن ۔ میں کَہ رہا تھا کہ قریہَ لیلیٰ نے کئی خوب صورت اشعار قارئین کو فراہم کیے ہیں ، یہ اشعار امین عاصم کے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ سے مملو ہیں اُن کی شاعری میں ہمارا سامنا ایک سنجیدہ فکر ، خود دار اور دیانت دار آدمی سے ہوتا ہے ۔
آپ ہی تولوں گا میں اچھے برے اعمال
کو
دفن کرنا مجھ کو سینے سے ترازو
باندھ کر
کہتے ہیں دشمن کو شکست دینا چاہیے
مگر شکستِ انا نہیں دینی چاہیے، سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل کسی کو اُس کی نظروں میں
گرانا ہوتا ہے، دوسروں کا بھرم قائم رکھنا بلاشبہ ایک ارفع بات ہے اِسی لیے کہتے
ہیں کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہوتا ہے، شاعر اپنے مخالفین سے اسی بلند
کرداری کی توقع رکھتا ہے، انہی جذبات سے مملو شعر دیکھیے ۔
میں نے دشمن کی بھی غیرت کا بہت پاس
کیا
کاٹ گردن مری بگڑی کو بچا کر قاتل
امین عاصم کی شاعری اس بات پر بھی
دلالت کرتی ہے کہ مضافات میں کتنا عمدہ و اعلیٰ ادب تخلیق ہو رہا ہے، حقیقت
بالآخر حقیقت ہوتی ہے جس کا اقرار سبھی کو کرنا پڑتا ہے، اگر سورج نکلا ہو تو
اُسے رات قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
مجھ کو حیرت سے سبھی لوگ یہاں
دیکھتے ہیں
میں وہ دریا ہوں کہ صحرا سے نکل
آیا ہوں
اسی قبیل کے بے شمار اشعار جن میں
ان کے ذاتی تجربے کی لپک اور معاشرتی نا آسودگی کی مہک لپٹی ہوئی ہے قریہَ لیلیٰ
میں جا بجا ملتے ہیں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
خوب انسان ہے ملتا ہے تو بچھ جاتا
ہے
تم کو عاصم سے ملاتے ہیں ذرا ٹھہرو
تو
کھولتا ہوں جو پوٹلی دل کی
صرف تیرا ہی غم نکلتا ہے
یہ دریا پربتوں سے اک کہانی ساتھ
لائے ہیں
سمندر کے لیے اپنی روانی ساتھ لائے
ہیں
تو کہ حیراں ہے فنِ جیب تراشی پہ
بہت
لوگ تو خواب بھی آنکھوں سے چُرا
لیتے ہیں
غرض یہ کہ امین عاصم کی شاعری جدید
فکر اور کلاسیکیت کے امتزاج کا خوب صورت نمونہ ہے۔
بشکریہ روزنامہ ڈاک، گجرات
کالم نگار اشفاق شاہیہن
یکم اگست 2009ء