Ticker

6/recent/ticker-posts

پروفیسر وقار افضل کی شاعری

Waqar Afzal ki Poetryأ-AdabSaz-Urdu POetry
 

وقار افضل

غزل.1

میں کیسے سمجھوں کلام تیرے

کہ دور سے ہیں سلام تیرے

وہ ہولے ہولے وہ دھیرے دھیرے

وہ شہر دل میں خرام تیرے

میں چشمِ حیرت سے دیکھتا ہوں

کہاں کہاں ہیں قیام تیرے

یہ دل کی دھڑکن بتا رہی ہے

کہ آ رہے ہیں پیام تیرے

نجانے کیسے میں پی رہا ہوں

کسی کے ہاتھوں سے جام تیرے

ہے گھر میں کوئی چراغ جیسا

جو اتنے روشن ہیں بام تیرے

ستارے جتنے ہیں آسماں پر

یہ سب خزانے ہیں نام تیرے

غزل.2

سڑک کے پار جہاں دھوپ کا نگر بھی ہے

اسی جگہ سے ذرا دور اک شجر بھی ہے

میں اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں سارے جنگل

وہ جس کی شاخوں پہ مہکا ہوا ثمر بھی ہے

اٹھا کے دیکھ لو جلدی سے اپنا عکس۔ جمیل

کہ آئینے پہ کسی اور کی نظر بھی ہے

پڑے ہوئے ہو جہاں پر پڑے رہو چپ چاپ

کسی کی یاد سے اچھا کوئی سفر بھی ہے

تجھے تو اپنی خبر تک نہیں ہے اور مجھے

ترے علاوہ کسی اور کی خبر بھی ہے

غزل.3

کوئی بھرپور ملاقات نہیں ہو پائی

بات جو خاص تھی وہ بات نہیں ہو پائی

رات کے پہلو میں اک شمع جلانے کے لیے

رات بھر جاگے مگر رات نہیں ہو پائی

جانے کس شہر میں آباد ہوئی تیرے بعد

وہ محبت جو ترے ساتھ نہیں ہو پائی

دور تک اڑتے ہوئے بادلوں کو پیار سے ہم

دیکھتے رہ گئے ، برسات نہیں ہو پائی

ہم نے منت کے لیے ہاتھ اٹھائے لیکن

پھر بھی اے دوست مناجات نہیں ہو پائی

غزل.4

پہلے تھا بےخودی کے پہلو میں

اور اب بے کلی کے پہلو میں

آسماں سے زمیں پہ رکھی گئی

زندگی بندگی کے پہلو میں

اوڑھ کر خواب گل کی چادر کو

سو گئے روشنی کے پہلو میں

آو کچھ دیر بیٹھتے ہیں وہاں

وہ ادھر زندگی کے پہلو میں

کوئی جگنو چمک رہا ہے وقار

اس طرف تیرگی کے پہلو میں

غزل.5

بتا رہا ہے ستارا یہ کتنی حیرت سے

کہ بجھ گیا ہے دیا روشنی کی دہشت سے

ابھی تو نیل گوں سایا ہے اور بیٹھے ہیں

پتا چلے گا انھیں آسماں کی ہجرت سے

نجانے کون ہے اور کس نے توڑ ڈالا

ڈرے ہوئے ہیں سبھی آئینے کی وحشت سے

ترے غرور سے پہلے اسی عدالت میں

وہ میں تھا جس کو پکارا گیا تھا عزت سے

کھڑے ہیں وقت کے لشکر کے سامنے دیکھو

ہے

کھنڈر کے آخری آثار کتنی جرات سے

سنہرے خواب میں جو خواب گھر بنا ہوا ہے

یہ لوگ روز اُسے دیکھتے ہیں حسرت سے

بلند و بالا درختوں کے بیچ و بیچ وقار

جھکا ہوا ہے کوئی پیڑ ایک مدت سے

ایک نظم

صحرائی تشنگی

اور میں وہ دریا

جو تقسیم در تقسیم کے

عمل سے گزرا

جس کے اپنے کناروں سے

پیہم آواز آرہی ہے

العطش العطش

جو خود تشنگی کی آغوش کا پروردہ ہو

وہ کس طرح

بجھائے پیاس ریگزاروں کی

ہاں اگر ان تشنہ لبوں کو ضم کر دیا جائے

تب شاید

لیکن نہیں

اس عمل کے لیے سرمدی جنوں کی ضرورت ہے

اور ہم جیسے شدت پیاس کے مارے

اس عارضی احساس میں مقید ہیں

بس دو گھونٹ

اورپھر اس کے بعد

روح کی اس سرگوشی کو

کون سنے

العطش العطش

وقار