Kawaish Butt lalamusa Gujrat ki poetry|Ashfaq Shaheen |
تحریر۔اشفاق شاہین
اردو کے معروف شاعر اور صحافی
کاوش بٹ کا تعلق گجرات کے مضافاتی قصبے لالہ موسی سے ہے۔ انہوں نے علاقہ کو ادبی پہچان دینے میں اہم
کردار ادا کیا ۔کاوش بٹ نے صحافت کو بطور
پیشہ اپنایا اور روزنامہ مشرق اور مقامی اخبار روزنامہ جذبہ سمیت کئی روزناموں سے
وابستہ رہے ۔ انہوں نے بطور صحافی علاقائی مسائل
تو اجاگر کیے مگر ان کا اہم کام لالہ موسی کو ملکی ادبی دھاے سے جوڑنا
تھا۔ وہ ہر سال 31 دسمبر کو کل پاکستان مشاعرہ کا انعقاد کرتے۔ یہ ادبی
تقریب الغنی پٹرولیم لالہ موسی کے دیدہ زیب مہمان خانے میں منعقد ہوتی تھی۔ یہ مشاعرہ ساری
رات چلتا تھا ان تقریبات میں بالخصوص پاکستان کے بڑے بڑے شعراء شرکت کرتے تھے۔کاوش
بٹ نے لالہ موسیٰ میں ایک ادبی تنظیم بھی’’ بزم تعمیر پسنداں کے نام سے قائم کر
رکھی تھی۔اس کے تحت مختلف اوقات میں مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔ ان تقریبات کے اختتام
پر شعراء کے لئے کھانے کا انتظام تو ہوتا ہی تھا انہیں اکثر اوقات اعزازیہ سے بھی
نوازا جاتا تھا ۔مجھے یاد ہے ایک مرتبہ محکمہ بہبود آبادی کے تعاون سے’’ بزم تعمیر
پسنداں‘‘ کے زیر اہتمام ایک مشاعرہ منعقد ہوا۔ تھا جس کی صدارت منصور آفاق صاحب نے
کی تھی۔میں بھی اس میں شامل تھا۔ ان دنوں اردو کے معروف شاعر عباس تابش ان دنوں
لالہ موسی تا تتلےکے کالج میں تدریس کی خدمات انجادے رہےتھے۔ اس میں بھی شعرا کو
اعزازیہ دیا گیا ۔مشعرہ کے بعد تمام شعرا گاڑی میں بیتھ کر لالہ موسی ریلوے اسٹیشن
گئے جہاں ریسٹ ہاوس میں انہیں پر تکلف کھانا پیش کیا گیا۔۔ کاوش بٹ ایک فعال شخصیت
تھے۔ وہ روزانہ مقامی اخبار جذبہ کے دفتر دن اور رات کے وقت خبروں کی اشاعت کے لیے
موجود ہوتے ۔ اخبار کے ایڈیٹر شاویز ملک اور راجہ طارق محمود ان کے بہت اچھے دوست
تھے ۔چنانچہ دفتر میں دیر تک گپ شپ رہیتی۔ میں شامل تھے چنانچہ وہ عموما رات گئے
دفر سے لالہ موسی راونہ ہوتے ۔ وہ معروف اردو شاعر احمد ندیم قاسمی کی شخصیت سے بہت متاثرتھی۔ اور مہینے میں ئی بار لاہور انہیں ملنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ واپس آکر وہ
ہمیں ان سے ملاقات کے قصے سنایا کرتے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ کس طرح بڑے سخنور کھلے
دل کے مالک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے سیکھنے سکھانے میں عار محسوس نہیں کرتے۔کاوش
بٹ ایک عرصہ گجرات کے روزنامہ جذبہ کے قطعہ نگار بھی رہے ہیں یہاں یہ امر قابل
ذکر ہے کہ ان کا کلام تواتر کے ساتھ ادبی مجلہ فنون میں چھپتا تھا۔ یہ تب کی بات
ہے جب ڈاکٹر وزیر آغا کا رسالہ اوراق اور احمد ندیم قسمی کے سرالے کا طوطی بولتا
تھا۔جو ان رسالوں میں چھپ جاتا وہ مشہور ہوجاتا اور اسے مستند سمجھا جاتا تھا۔ ان دونوں
شخصیات اور رسالوں کے حوالے سے خوب ادبی بحث چلتی تھی ۔جن دنوں کاوش بٹ کا اخبار
کے دفر آنا جانا تھا تب مین بھی اخبار کی ملازمت میں تھا۔ میں ایڈیٹنگ کے ساتھ ساتھ شعربھی کہتا تھا کہتا
تھا اور اخبار میں قطعات بھی لکتا تھا۔ ہم دونوں کے مشترکہ دوست پروفیسر مسعود
ہاشمی بھی کسی کسی قت اخبار کے افتر آجاتے ارر پھرادبی گفتگو چل نکلتی۔مسورد
ہاشمی بھی اخبار کے لیے قطعات لکتے تھے۔ ابار انہوں نے انہوں نے ہم دونوں کے لیے
ایک قطعی لکھا جو ابھی تک میرے حافظہ میں موجود ہے۔ جو یوں تھا
مشاغل
ان کے یکساں ہیں غزل گوئی میں یکتا ہیں
محبت،
الفت و دل داری کی اک تصویر لگتے ہیں
مجھے اشفاق شاہیں اور کاوش بٹ سے الفت ہے
یہ
دونوں شعر کو اس شہر کی توقیر لگتے ہیں
کاوش
بٹ کی شاعری میں معاشرتی جبر، محبت اور وفا سے کی مٹی سے گندھی ہے ۔وہ ایک ترقی پسند شاعر تھے۔ان کے اشعار
میں حالات کے سامنے ڈٹ جانے کا جذبہ اور درس ملتا ہے۔ اگرچہ وہ بہت پڑھے لکھے نہیں
تھے لیکن انہوں نے دنیا کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہ بچپن میں سخت حالات سے نبرد
آزما ہوتے ہوئے شہرت کی دہلیز پر پہنچے تھے چنانچہ وہ پسے ہوئے طبقات کا دکھ اچھی
طرح محسوس کر سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے یہ سارے رنگ ان کے کلام میں کارفرما ہو گئے ۔یوں
بھی انکی علیک سلیک اور تعلقات منظر نامہ کے تمام صف اول کے شعرا کے ساتھ تھے اور
ان کے تقریبا سبھی احباب مزاحمتی تحریک اور ترقی پسند تحریک کا حصہ تھے ۔چنانچہ ان کے کلام میں بھی یہ
عنصر پایا جاتا ہے۔چند مزاحمتی اشعار ملاحظہ فرمائیے
وہ اب بستی کا مالک بن چکا ہے
جو
آیا تھا کبھی مہمان بن کر
کسی
کو کو تم نہیں ملتے کسی کو ہم نہیں ملتے
دنیا ہے یہاں حسب ضرورت غم نہیں ملتے
تو
زرداروں کا حامی ہے ترے زردارہ حامی ہیں
یہ
چرچا ان دنوں سارے قلمکاروں کے گھر میں ہے
طنابیں
کاٹ کر بے آسرا خیمے کیے جس نے
قبیلے کا وہی سردار ہوگا یہ نہیں سوچا
گئے وقتوں کے لوگوں کی ابھی تک حکمرانی ہے
اسی باعث دلوں کی سر زمیں کا خون پانی ہے
ایک سچا شاعر معاشرے کے رویوں کا عکاس ہوتا ہے۔ وہ
گھسے پٹے مضامین کی جگالی نہیں کرتا بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور اپنے دل سے محسوس
کر کے قرطاس کو سونپے گئے الفاظ و خیالات پر اپنی مہر ثبت کر دیتا ہے۔ کاوش اخبار سے وابستہ تھے تو یہ کیسے ممکن تھا
کہ اخبار اور خبروں والی باتیں ان کے کلام میں موجود نہ ہو وہ لکھتے ہیں
وہ خبریں جو کہ اخباروں میں ہم سب روز پڑھتے ہیں
ہر اک کالم کی سرخی خوف کی لمبی کہانی ہے
تو
زرداروں کا حامی ہے ترے زردارہ حامی ہیں
یہ
چرچا ان دنوں سارے قلمکاروں کے گھر میں ہے
مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں روایتی
جمالیاتی پہلو بھی پایا جاتا ہے وہ صرف کھردرے حقائق ہی سامنے نہیہں لاتے بلکہ نرم
و نازک جذبات کی ترجمانی بھی جانتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
سجا
کر ہم نے رکھ دی ہے تری تصویر کمرے میں
ہے اپنی چاہتوں کی مستقل جاگیر کمرے میں
کسی کو تم نہیں ملتے کسی کو ہم نہیں ملتے
یہ
اہی یہاں حسب ضرورت کم نہیں ملتے
وہ
جب بھی ابر کرم کی مثال آئے گا
اداسییوں
کی رتوں پر زوال آئے گا
وہ خوبرو کسی ترتیب کا نہیں قائل
ہر
اک سے دست حنائی ملانے لگتا ہے
زمانے کے سختی حالات پروہ شکایت نہ کرنے اور ہمت قائم رکھنے کے قائل ہیں۔ بڑے بڑے شاعروں کی طرح ان کے کلام میں بھی رجائیت کا پہلو روش روش جھلملاتا ہوا دکھائی دیتا
ہے۔ لکھتے ہیں
مشکل
میں کسی نے میری امداد نہیں کی
میں
نے بھی اس باب میں فریاد نہیں کی
تمام عمر جلایا قبروں چراغ خبروں پر
اپنا شہر خاموشاں میں بھی شمار ہے
رفاقت کا سفر دشوار ہوگا یہ نہیں سوچا
زمانہ راہ کی دیوار ہوگا یہ نہیں سوچا
روایت
سے بغاوت کرکے پہنچا ہوں تیرے در تک
یہاں اک لشکر جرار ہوگا یہ نہیں سوچا
اقلیم سخن کا یہ تابندہ ستارہ بھارت میں ایک عالمی مشاعرہ کے دوران ہم سے جدا ہو گیا
۔۔۔۔۔